Click here to View Printed Statement
اثر ہوتا ہے ۔تقریروں اور تحریروں کا اثر ہوتا ہے۔ جب آپ بار بار لوگوں کو بتائیں کہ ”ملک مکمل طور پر آزاد نہیں ہے اور اس پر ”بادشاہت” نے قبضہ کر لیا ہے تو ان لفظوں کی معصوم انسانی ذہنوں میں خوفناک تصاویر بننا شروع ہوجاتی ہیں۔بادشاہ بڑا ظالم ہوگا۔ اپنے مخالفین کو اندھے کنویں میں ڈالوا دیتا ہوگا۔ جو بھی اختلاف کرے گا اسی وقت سرتن سے جُدا ہوجائے گا۔بادشاہ کی سینکڑوں باندیاں ہوں گی۔محل سرا میں گانے بجانے اور رقص و سرور کی محفلیں سجتی ہوں گی۔ کتنے جذبوں کا ارمان ہوتا ہوگا۔بادشاہ ہاتھی پر چڑھ کر شکار کو جاتا ہوگا اور اس کے سپاہی بے گناہ جانوروں کو پکڑ کر اس کے سامنے لاتے ہوں گے اور وہ گولی چلا دیتا ہوگا” ایسے ظالم بادشاہ کے خلاف جنگ کرنا جہاد ہے
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
سوال یہ ہے کہ عوام اور سیاست کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے۔اگر اس ملک کی آبادی بیس کروڑ مان لی جائے تو مئی 2013ء کے انتخابات میں انتخابی عمل میں حصہ لینے والے پاکستانیوں کی کل تعداد صرف ساڑھے چار کروڑ بنتی ہے۔یہ ساڑھے چار کروڑ لوگ کل آبادی کا صرف بائیس فیصد بنتے ہیں ۔ یعنی 78فیصد وہ پاکستانی ہیں جو مختلف وجوہات کی بناء پر اس انتخابی عمل سے دور رہے ہیں ۔ مرکز میں حکومت بنانے والی جماعت کو ڈیڑھ کروڑ لوگوںنے ووٹ دیا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکمرانی کا حق حاصل کرنے والی جماعت کو پچھتر لاکھ ووٹ پڑے اور سندھ میں حکمران گروہ کے حصے میں 68لاکھ اور اسی طرح ایم کیو ایم اور آزاد امیدواران کو ووٹ ڈالے گئے ۔ ان تمام اعدادوشمار سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ سیاستدانوں کا عوام کے صرف بائیس فیصد حصے سے تعلق ہے۔ باقی عوام کو نہ تو سیاست پر اعتماد ہے اور نہ ہی سیاستدانوںکو اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں ۔یا دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ لیں کہ پاکستانی قوم کا بہت بڑا حصہ سیاسی نظام سے اس قدر مایوس ہوچکا ہے کہ انہیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں کہ ملک میں فوج کی حکمرانی ہے۔(ن) کی حکومت ہے۔ طاہر القادری کا انقلاب یا عمران خان کا نیا پاکستان Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
پاکستان کی بنیادوں میں تو ایسی کوئی کجی نہیں تھی۔اس کے بانیوں کا کردار انتہائی شفاف اور اُجلا تھا۔ کوئی ایک نام بتا دوجس نے دھونس’دھاندلی’زبردستی اور غیر جمہوری رویے کا مظاہرہ کیا ہو۔ بانی پاکستان کی اصول پسندی اور جمہوریت پسندی کی دُنیا معترف ہے۔محترمہ فاطمہ جناح کی زندگی بھی جمہوریت کی بالادستی کی جدوجہد میں گزری۔ اداروں کی مضبوطی اور پارلیمان کی بالادستی کے لئے قائد نے کتنی شدت کے ساتھ نصیحتیں کی تھیں۔ یہ دھرنے’پُرتشدد مظاہرے اور مُلکی اداروں کو للکارنے کا کلچر تو بعد کی پیداوار ہے۔سڑکوں پر آنا’راستے بند کردینا’دلیل کی بجائے طاقت کے زور پر اپنے مطالبات منوانا اور ”تڑیاں” لگانا کہ ”اگر مجھے بند کیا گیا تو میں پورا ملک بند کردوں گا” اور اپنے کارکنوں کو انگیخت کر نا کہ ”انقلابی جتھے پولیس والوں کے گھروں میں گھس جائیں اور پندرہ جانوں کا بدلہ پندرہ جانوں سے لیا جائے گا” یہ کونسے اصلاح پسند گروہ ہیں جو حکومت گرانے کے لئے اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تُل گئے ہیں۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM