Feb 23
|
Feb 15
|
Feb 12
|
Click here to View Printed Statement
کون نہیں جانتا کہ اکتوبر 1948ء میں بھارت نے فضائی برتری کا سہارا لے کر 50 ہزار غاصب اور جارح مسلح بھارتی فوج کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کیا۔ واضح رہے کہ انہی دنوں بھارت حیدر آباد کن’ بھوپال اور جونا گڑھ کی ریاستوں پر قبضے کے لئے برہنہ عسکری جارحیت کا ارتکاب کرچکا تھا۔ جب عالمی اداروں اور عالمی برادری نے اس کا نوٹس نہ لیا تو بھارتی توسیع پسند اور جنگی جنونی حکمرانوں کے حوصلے بڑھ گئے اور وہ ”وادی جنت نظیر کشمیر” کو بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا دوزخ بنانے پر بلاخوف و خطرکاربند ہوگئے۔ مقبوضہ وادی جموں وکشمیر 68 برسوں سے بھارتی افواج کے غاصبانہ قبضے میں ہے اور اس کی اکثریتی مسلم آبادی کو بھارتی حکومت ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت نازیانہ تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ اس میں نوجوانوں کا قتل عام’ معصوم بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنانا اور عورتوں کی آبروریزی شامل ہے۔جنیوا میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے لئے تیار کی گئی اپنی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کرسٹوف ہینز بھارت پر زور دے چکے ہیں Continue reading »
Feb 08
|
Click here to View Printed Statement
اس امر میںکوئی شبہ نہیں ہے کہ حکیم الامت علامہ ا قبال کو کشمیر کے جذباتی’روحانی اور ایسی بے پناہ محبت تھی کہ اس کا اظہارانہوں نے اپنے کلام ‘خطوط اور عمل سے کئی مواقع پر کیا۔ علامہ اقبال کے بزرگوں کا تعلق کشمیر سے تھا۔انہیں اس پر ناز تھا کہ اُن کی شریانوںمیں دوڑنے والا لہوکشمیر کے شفق فام چناروں کی طرح سرخ ہے۔
ایک جگہ وہ فرماتے ہیں’
تنم گلے زخیابان جنت کشمیر
ولم ز خاک حجازو نواز شیرازاست
یعنی کہ ”میرا بدن گلستان کشمیر کا ایک پھول ہے اور میر ا دل ارض حجاز اور میری صدا شیراز سے ہے ”۔ کشمیر سے جدی تعلق رکھنے کے باوجود انہیں اس امر کابھی گہرا احساس تھا کہ وہ اس وادی جنت نظیر کا مشاہدہ بچشم خود نہیں کرسکے۔ یہ احساس محرومی اشعار کے قالب میں یوں ڈھل کر سامنے آیا۔
کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے
اس باغ جاں فزا کا یہ بلبل اسیر ہے
ورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد
جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے
موتی عدن سے’ لعل ہوا یمن سے دور
یا نافہ غزال ہوا ختن سے دور
ہندوستان میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر
بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دُور Continue reading »
Feb 03
|
Click here to View Printed Statement
ہر عام انتخابات کے موقع پر کروڑوں رائے دہندگان اپنے ووٹ کا آزادانہ اور بے باکانہ استعمال کرکے آئندہ 5 سال کے لئے نئی پارلیمنٹ منتخب کرنے کے لئے اپنے گھروں سے جوق در جوق نکلتے’اپنے حلقوں میں قائم پاکستان الیکشن کمیشن کے باضابطہ پولنگ سٹیشنوں تک پہنچتے اور اپنا ووٹ تئیں جس امیدوار کو اہل سمجھتے ہیں دیتے ہیں۔ووٹ بلاشبہ ایک قیمتی امانت ہے ۔ یاد رہے کہ امانت کے بارے میں قرآنی حکم یہ ہے :”بے شک اللہ تمہیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ تم اپنی امانتیں اُن ک اہل لوگوں تک لوٹا دو” یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ووٹ اقتدار’اختیار’قوت’طاقت اور حکومت کا نقش گر اور عکاس ہوتا ہے۔ووٹ محض کاغذ کی ایک پرچی نہیں ہوتا کہ جس پر کوئی بھی ووٹر کسی بھی امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگا کر اُسے بیلٹ بکس میں ڈال آتا ہے۔ Continue reading »