Click here to View Printed Statement
خیر اور شر کا تصادم فطری اور دائمی ہے
ایسا کبھی ہوا نہیں کہ دنیا سے شر مکمل طورپر ختم ہوگیا ہو۔انسان کے اندر شر کی قوتیں خیر کی طاقتوں سے ہمیشہ نبردآزما رہتی ہیں ۔آپ اسے حضرت انسان کی فطرت کہہ سکتے ہیں ۔ان شرانگیز طاقتوں کو آپ نیگیٹیو فورسز کا عنوان دے سکتے ہیں ۔قرآن انہیں شیطانی طاقتوں کا نام دیتا ہے ۔ہر منفی سوچ ،ہر تخریبی تصور ہر انسان دشمن منصوبہ ،ہرابلیسی حربہ چاہے اس کا محل وقوع انسان کی اپنی ذات ہو ،اس کا ماحول ہو،ملک ہویاسرزمین ہو
Continue reading »
written by DrMurtazaMughal@
Click here to View Printed Statement
افسوس کہ ہمارے ہاں کامیابی اور ناکامی کے معیار اقدار پر استوار ہونے کی بجائے اختیاروزر اور اقتدار جیسی مصنوعی بنیادوں پر اٹھائے جارہے ہیں۔جو لوگ اصولوں کیساتھ زندگی گزارتے ہیں وہ ہمارے نزدیک ناکام،بھولے اور بیوقوف قرار پاتے ہیں۔جھکنے والے رفعتیں پاتے ہیں اور بااصول لوگ راندہ درگاہ ہوجاتے ہیں۔ہمارے معاشرے کے بگاڑ کا سبب بھی یہی غلط معیارات ہیں۔ہمارے دین نے ہمیں حق کی گواہی دینے کا درس دیا ہے۔اسلام کی ابتدا ہی کلمہ حق کہنے سے ہوئی تھی۔حق گوئی ایک اعلی وصف سمجھا جاتا تھا۔بااصول انسان کی توقیر ہوتی تھی۔سچ بولنے والے کو بہادر ہونے کا لقب ملتا تھا۔جابر سلطان کے سامنے ڈٹ جانے والے عوام کیلئے روشنی کا مینار ہوتیتھے۔معاشرہ انہی روشن میناروں کی روشنی میں صراط مستقیم پر چلتا رہتا تھا۔جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد ہمارے معاشرے کیلئے روشنی کا مینار ہیں۔ لیکن افسوس کہ کچھ کم ظرفوں نے اس روشنی کے اس مینارکو گرانے کی کوشش کی۔
Continue reading »
written by DrMurtazaMughal@
Click here to View Printed Statement
مغرب اور مشرق میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ مغرب اپنے فیملی سسٹم کو تباہ کرچکا ہے اور مشرق اس نظام سے ابھی تک جڑا ہوا ہے۔اگرچہ ہمارے ہاں بھی یہ بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ خاندانی نظام کا آخر فائدہ کیا ہے؟میرے نزدیک اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ حال ہی میں کرونا وباء کے دوران سامنے آیا ہے۔کتنے ہی ایسے مریض تھے جنہیں ان کے بہن بھائیوں اور عزیز واقارب نے سنبھالا۔حالانکہ شروع شروع میں حکومت کیطرف سے بہت سختی کی گئی تھی۔کورونا کے مریض کو اچھوت سمجھ کر سرکاری ہسپتال میں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جاتا تھا۔لیکن یہ بہن بھائی اور ماں باپ ہی تھے جو بارش اور دھوپ میں وارڈ کے باہر کھڑے رہتے تھے اور ڈاکٹروں سے التجائیں کرتے تھے کہ ایک بار ان کو اپنے مریض کو دیکھ لینے دیں۔جب ادوایات کی فراہمی عام ہوگئی تو گھر والوں نے اپنے مریض کو گھر میں ہی آئسولیٹ کیا اور انہوں نے مریض کو نفسیاتی طور پر بے سہارا نہیں ہونے دیا۔
Continue reading »
written by DrMurtazaMughal@
Click here to View Printed Statement
بارشوں نے شہروں کے چھپے ہوئے گند کو ہی نہیں اچھالا ہمارے دل ودماغ میں بھری ہوئی بدبو کو بھی شاہراہوں پر انڈیل دیا ہے ۔سیاستدان،میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین سب کسی دلچسپ ویڈیو کی تلاش میں ہیں ۔کسی ڈوبتے ہوئے ٹینکر کی تصویر مل جائے ،کسی گٹر میں پھنسے ہوئے بچے کی لاش مل جائے ،کوئی چوتھی منزل سے چھلانگ لگاتا دکھائی دے جائے ،کسی کے گھر پانی گھسے اور دوشیزائیں بھاگتے ہوئے نظر آجائیں ،کسی عورت کا لخت جگر بپھری لہروں میں بہہ جائے۔کہیں سے کچھ ایسا مل جائے جس سے تقریر دلپذیر ہوسکے ،جس سے ریٹنگ بڑھ سکے اور جس سے ویڈیو کلپ وائرل ہوجائے ۔مجھے ایک ویڈیو کلپ دیکھ کر بیحد دکھ ہوا کہ درجنوں لوگ اپنے موبائل فون لیے ایک پل کے بہہ جانے کی ہنس ہنس کر ویڈیو بنا رہے ہیں۔پانی کا بہاؤ اسقدر شدید تھا کہ دو تین منٹوں میں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے وہ پل اڑ گیا اور لوگوں نےِِ”وہ گیا،وہ گیا ”کے مسرت بھرے قہقے لگائے ۔
Continue reading »
written by DrMurtazaMughal@