Click here to View Printed Statement
ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اُڑی پر حملے کے بعد سفارتی محاذ پر جس برق رفتاری کا مظاہرہ ہمیں کرنا چاہیے تھا وہ نہیں ہوسکا۔ اور اس سست روی کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھ لیا ہے۔سارک کا پلیٹ فارم بھارت نے عملاً ہتھیا لیا ہے۔ بنگلہ دیش اور افغانستان کی بات چھوڑیے۔سری لنکا اور نیپال جیسے ممالک بھی پاکستان کا ساتھ دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ مجبوراًپاکستان کو بطور میزبان سارک کانفرنس ملتوی کرنا پڑی۔ یہ ایک سفارتی شکست ہے۔ بھارت نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کا خوب تماشا لگا رکھاہے۔ امریکہ تو بھارت کی بلائیں لیتے تھکتا نہیں ہے۔اب روس کے صدر نے بھارت جاکر اربوں ڈالر کے معاہدے کر ڈالے ہیں ۔ اگر چین ہماری مدد کو نہ آتا تو برکس کے اجلاس سے مزید اینٹیں برسنے کا امکان تھا ۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
ہمارے والدین ”کرپشن” کے لفظ سے واقف نہیں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد رشوت ستانی کی اصطلاع عام ہوئی تھی۔ بعض بیوروکریٹس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت بڑے رشوت خور ہیں۔ تقسیم کے وقت جھوٹے کلیم بنانے اور ان جعلی کاغذات کے عوض رشوت لے کر زمینیں اور جائیدادیں الاٹ کرنے والوں کا چرچا رہتا تھا۔ جب عدالتی نظام پھیل گیا تو بعض ججوں کے بارے میں بھی خبریں آنا شروع ہوئیں کہ فلاں جج رشوت خُور ہے۔ رشوت ستانی ایک ایسا الزام اور جُرم تھا کہ عام لوگ کسی راشی افسر کو دیکھ لیتے تو کُھلے عام بیزاری کا اظہار کرتے دکھائی دیتے تھے۔ بعض دفاتر کے اندر ”رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں” کی حدیث مبارکہ جلی حروف میں لکھی ہوئی تھی۔ رشوت خوری کیخلاف سماجی اور مذہبی جماعتیں مہمات بھی چلاتی تھیں۔ رشوت خور عہدیدار کے ساتھ کوئی معزز شہری اپنی بیٹی بیاھنے پر تیار نہیں ہوتا تھا۔ پولیس افسران کے خلاف رشوت کے مقدمات بننے شروع ہوئے
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
دل دہلا دینے والی تصویریں سامنے پڑی ہیں۔ گاندھی کے پیروکار اس قدر سنگدل ہوجائیں گے۔ یہ کوئی ہندو مسلم فسادات کی تصویر نہیں۔ ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق دو مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا بھیانک منظر ہے۔ تصویر میں دو نوجوان دکھائی دے رہے ہیں۔ اُن کے گلے میں کسے ہوئے پھندے ہیں۔ اُن کے لٹکتے ہوئے دھڑ ہیں۔آنکھیں باہر کو آگئی ہیں۔ وہ درختوں پر لٹکے ہوئے ہیں۔ ان کا اصلی جُرم یہ ہے کہ مسلمان ہیں۔ہندو انتہا پسندوں نے ان پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے گائے خریدی ہے۔ جھاڑ کھنڈ کی سرکار’ پولیس’ عدلیہ’ سماج سب کے سب ایک ہی طرح کی ذہنیت یعنی مودی ذہنیت کا شکار ہیں۔ کسی نے نہیں روکا’کوئی آگے نہیں آیا۔ کسی نے مسلمانوں کا مئوقف سننے کی زحمت نہیںکی۔مائیں روتی رہیں’ بہنیں منتیں کرتی رہیں’ بچے بلبلاتے رہے۔ لیکن ظالم اور سفاک ہندوئوں نے جنگلوں میں لے جا کر ان مسلمانوں کو شہید کردیا۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ ہر روز یہی سفاکیت ہے۔ بھارتی ادارے رپورٹیں دے چُکے ہیں کہ کس طرح بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
وزیراعظم میاں محمد نوازشریف عملاً پھٹ پڑے ہیں۔ نیب نے احتساب کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے پنجاب حکومت کی طرف پنجے بڑھائے تو چیخیں نکل گئی ہیں۔ ایف آئی اے میں بھرتیوں کا سکینڈل’ رائے ونڈ روڈ کی تعمیر کا معمہ’گرین لائن ٹرین کا مُدّا اور پاک قطر ایل این جی معاہدے کا پھڈا۔اور پندرہ افسران کی گردن کے گرد پھندا۔ کیا کیا راز سامنے آرہے ہیں۔دو تہائی اکثریت والی حکومت کے وزیراعظم نے بھری محفل میں اپنی بے بسی کا رونا رویا۔ کہا کہ وہ نیب کے چیئرمین کو متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ بیوروکریٹس کو حراساں نہ کیا جائے لیکن چوہدری قمر الزمان نے کوئی عمل درآمد نہیں کیا۔وزیراعظم نے یہ بھی بتا دیا کہ اگر چوہدری صاحب نے اپنے ”کارندوں” کو تنگ کرنے سے نہ روکا تو پھر حکومت قانونی بندوبست کرے گی۔ پنجاب کے وزیر قانون نے وزیراعظم کے مئوقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
راستے روکے نہیں جاسکتے۔ قافلے منزل تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔زمین تنگ نہیں کہ کوئی متبادل روٹ نہ مل سکے۔ نااتفاقی کے سبب اگر ایک بار اعتماد ختم ہوجائے تو پھر قافلے والے وقت ضائع نہیں کرتے۔ کاروبار میں دوستیاں نہیں ضرورتیں اہم ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان کے سیاستدان آپس میں جھگڑتے رہیں گے تو چین کوئی نہ کوئی متبادل حل نکال لے گا۔ ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کاروباری رفاقت نے پاکستان کی اقتصادی راہداری کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ چاہ بہار کی بندرگاہ زیر تعمیر ہے۔گوادر نہ سہی چاہ بہار تو ہے ۔ایرانی صدر یورپ میں تجارتی معاہدے کر چُکے ہیں۔ایران کے بنکوں نے از سر نو تجارت شروع کردی ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہمارے تحفظات ہی دور نہیں ہورہے۔ وزیر منصوبہ بندی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک ”کمیونیکیشن گیپ“ پیدا ہوچکا ہے ۔ وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے آل پارٹیز اجلاس میں تمام پارٹیاں متفق تو ہیں لیکن مطمئن نہیں ہیں۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
سعودی وزیر خارجہ کے بعد وزیر دفاع کا دورہ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اس کی اہمیت کے حوالے سے گرما گرم بحثیں بپا ہیں اور ہوسکتا ہے کہ حکومت مخالفت قوتیں اس دورے کو بھی متنازع بنانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن سعودی وزیر دفاع کی آرمی چیف اور وزیراعظم سے ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیانات کے بعد پاکستانیوں کی عمومی رائے سعودی عرب کے حوالے سے بہتر ہوئی ہے۔سعودی عرب نے تمام اُمور پر پاکستان کے مﺅقف کی تائید کا اعلان کرکے بہت سے خدشات دور کر دیئے ہیں۔خوش آئند اور اندر کی خبریں یہ ہیں کہ سعودی ایران تنازعات کو ٹھنڈا رکھنے پر سرزمین حجاز سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ اور چند دنوں میں سفارتی رابطے موثر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان نے سعودی سربراہی میں بننے والے 34 ملکی اتحاد میں شمولیت کا واضح اعلان کردیا ہے اور سعودی سالمیت پر حملے کی صورت میں خود کو غیر جانبداری کے مخمصے سے نکال کر واضح پوزیشن لے لی ہے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
بدلتے سماجی اور معاشی تقاضوں کی بدولت اب شہروں کی شناخت بھی تبدیل ہورہی ہے۔ گوجرانوالہ پہلوانوں کے شہر کے طور پر مشہور تھا لیکن اب اس شہرت میں تعلیمی اداروں نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے کیمپس نے تعارف کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میڈیکل کالج نے تعلیمی فضاء ہی تبدیل کردی ہے۔ طالبات کے کالجز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور استعداد سے ماحول میں علمی خوشبو رچ بس گئی ہے۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر ہورہی ہے تو دوسری طرف والدین اور طلباء و طالبات کی سہولت کے لئے نت نئے تعلیمی ادارے کھولے جارہے ہیں۔وہ وقت دور نہیں جب گوجرانوالہ کو بھی کالجوں کا شہر قرار دیا جاسکے گا۔
شہر کے تعلیمی تعارف کا سہرا وہاں سے منتخب ہونے والے چند ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کے سر جاتا ہے ۔ ان محدودے چند افراد کا ر نے واقعی عوامی نمائندگی کا حق ادا کردیا ہے ۔ لیکن یہ ناانصافی ہوگی اگر پنجاب کے علم دوست وزیر اعلیٰ شہبازشریف کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ عوامی سہولیات کی فراہمی اور اجتماعی سماجی کاموں کے لئے میاں صاحب صوبہ کے عوامی نمائندگان کو اداروں کے قیام پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔
جناب عبدالرئوف مغل گوجرانوالہ سے ایم۔پی۔اے ہیں۔ انہوں نے اپنے حلقے میں فروغ تعلیم کے لیے انتھک کام کیا ہے ۔ حال ہی میں بچیوں کے لئے ایک عظیم الشان کالج بنوایا ہے۔ پانچ ستمبر کو اس کالج کی افتتاحی تقریب میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
دہشت گردی اب کسی ایک مُلک یا قوم کا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ ایک بین الاقوامی اشو بن چُکا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے عفریت سے بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ افواج پاکستان کو دہشت گردوں کے خاتمے کا جو ٹاسک دیا گیا تھا وہ بڑی حد تک پورا ہوچکا ہے۔ فوجی نوعیت کی فتوحات قابل ذکر ہیں۔ضرب عضب کے تین اہداف مقرر کئے گئے تھے۔پہلا ہدف ان دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کے ٹھکانے ختم کرنے تھے جو اعلانیہ طور پر ریاست اور ملک کے خلاف برسرپیکار تھے۔ الحمد اللہ ہماری عسکری قوت نے ”ناقابل شکست ” سمجھے جانے والے ان گروہوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ یہ بلوچستان کے علیحدگی پسند لشکر تھے یا اسلام کا نام استعمال کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو توڑنا چاہتے تھے دونوں قسم کے گروہ اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ جو چند بچے ہیں وہ بھی فرار کی راہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ہمارے بہادر فوجی ان کی آخری پناہ گاہوں تک جاپہنچے ہیں۔دوسرا ہدف فرقہ وارانہ تنظیموں کی وارداتوں پر قابو پانا تھا۔مقام شکر ہے کہ ان کے وجود کو بھی نیست و نابود کردیا گیا ہے۔ اب ان کے اندر ہتھیار اٹھانے کی ہمت نہیں رہی اور ان کے ماسٹر مائنڈز کو مضبوط گرفت میں لیا جاچُکا ہے۔ مُلک میں ٹارگٹ کلنک کے اکا دُکا واقعات تو ہوتے ہیں لیکن ایسی انتہا پسند تنظیموں کا نیٹ ورک تباہ کردیا گیاہے۔ تیسرا اور اہم ترین ہدف دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت اور معاون لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا تھا اس حوالے سے کراچی میں جو آپریشن ہورہا ہے اس کے ذریعے بڑے بڑے نامی گرامی لوگوں کو پکڑا جا چُکا ہے۔ چونکہ کرپشن انڈسٹری کے ذریعے ہی ان شدت پسند گروہوں کو مالی مدد فراہم کی جاتی تھی اس لئے مالی بدعنوانی کے ذرائع پر آہنی ہاتھ ڈالا گیا ہے ۔ قوم کو یقین ہے کہ کراچی میں آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر ہی ختم ہوگا۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
ایک اخبار نے لکھا ہے کہ روس میں پاک بھارت وزرء اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھارت کے موقف کو نمایاں کوریج ملی کیونکہ بھارتی میڈیا وہاں پر موجود تھا جب کہ پاکستانی وفد کے ہمراہ پاکستانی میڈیا کو نہیں لے جایا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی موجودگی سے پاکستان کے حق میں فضاء تبدیل ہوجاتی اور جو تصویریں اور فوٹیج بنی ہے اس کے مقابلے میں بھی چند تصاویر چل جاتیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ تھا ہی نہیں۔ ہمارے انکل نسیم انور بیگ (جنت نصیب) فرماتے تھے کہ معاشی آزادی کے بغیر ہر آزادی ادھوری رہتی ہے۔ پاکستان معاشی طور پر آزاد نہیں تو وہ خارجی سطح پر باعزت کیسے ہوسکتا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ پاکستان کا انگ انگ قرضوں میں جکڑا ہوا ہے بلکہ پاکستان کا ہر سال کا بجٹ بھی خسارے کا بجٹ ہوتا ہے اور ہمیں اپنے معاملات ریاست چلانے ‘تنخواہیں دینے اور وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی قرض لینا پرتا ہے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
بی بی سی کی رپورٹ آنے کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ وزارت داخلہ حرکت میں آئے گی اور ایم کیو ایم کے متحرک رہنمائوں کے گھروں پر چھاپے پڑیں گے’ دفاتر سیل ہوں گے اور الطاف حسین صاحب کو برطانیہ سے طلب کیا جائے گا۔ ”ایگزیکٹ” کے معاملے میں چوہدری نثار علی خان نے جو سرعت دکھائی تھی’ اس سے یہی توقع تھی ۔ نیو یارک ٹائمز اور بی بی سی کا” تقدس” تقریباً ایک جیسا ہے تو ردعمل بھی برابر کا ہونا چاہیے۔ لیکن چوہدری صاحب اس کے برخلاف بارہ گھنٹے تک خاموش رہے ‘ وزیر دفاع نے بین السطور گفتگو کی اور قومی اسمبلی میں طعنہ دیا کہ ایم ۔ کیو ۔ ایم کی ”لوڈشیڈنگ ” ہونے والی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو کہیں سے فون آیا ہوگا انہوں نے چوہدری نثار کو بی بی سی کی رپورٹ کے حوالے سے تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چوہدری صاحب نے تحقیقات کے اس کام کو طول دینے کے لئے برطانیہ سے معلومات حاصل کرنے کی راہ ڈھونڈی ہے۔ خط جائے گا’ کب جائے گا’ پھر جواب آئے گا۔بی بی سی والے حکومت پاکستان کو ثبوت فراہم کریں گے یا ٹال دیں گے۔ ابلتا پانی ہے اور اس میں ٹھنڈی مدھانی ہے۔ وزارت داخلہ اسے گھماتی رہے گی۔ہلکا پُھلکا شور اُٹھے گا اور پھر میڈیا کو کوئی بڑی خبر مل جائے گی۔ جس طرح ایم۔ کیو۔ ایم کے خلاف بی بی سی کی رپورٹ نے ملک میں جاری لوڈشیڈنگ کے سبب جاری حملوں سے مسلم لیگ (ن) کو نجات دلائی ہے Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
قارئین اکرام اور پیارے روزہ دار بہن بھائیو! چودہ صدیوں سے مسلم امہ ماہ صیام میں روزہ کی نعمت سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ ہر سال رمضان المبارک میں ہم سحری سے افطاری تک روزہ رکھتے ہیں اور ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم قرآنی حکم اور اسوہ رسول ۖ کی روشنی میں اپنی اس عبادت کو جاری رکھیں ۔مجھے یقین ہے کہ آپ روزہ اور اس کی اہمیت اور اس کی برکات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ چونکہ تذکیہ سے ایمانی تقویت حاصل ہوتی ہے اس لئے اللہ کی طرف سے عطا کی گئی اس خوبصورت عبادت کے مختلف پہلوئوں کا اس حوالے سے جائزہ لیں گے۔
یہاں میں یہ بھی واضح کردوں کہ تقویٰ کے حوالے سے مختلف تشریحات ہمارے سامنے ہیں۔ تقویٰ کسی مومن کی وہ دماغی حالت ہے جہاں انسان کے اندر ارادے کی ایسی قوت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ برائی سے دور بھاگتا ہے اور اچھائی کی طرف لپکتا ہے۔ ہم آج اس نشست میں یہ دیکھیں گے کہ تقویٰ کی منزل کے حصول میں روزہ کس طرح مدد کرتا ہے ۔صیاّم کا لفظی ترجمہ ٹھہرجانے کا ہے۔”رک جانے” کو صوم کہا جاتا ہے۔ اگر آپ چل رہے ہیں تو رک جائیں۔آپ کھا رہے ہیں تو رک جائیں۔آپ پی رہے ہیں تو رک جائیں’آپ سوچ رہے ہیں تو رُک جائیں’آپ سن رہے ہیں تو رُک جائیں ‘آپ دیکھ رہے ہیں تو رُک جائیں۔
روزہ آپ کو روک دیتا ہے۔اگر کوئی شخص بُرے کام کے ارادے سے چل رہا ہے تو روزے دار کو حکم ہے کہ وہ برائی کی طرف قدم نہ بڑھائے۔اگر کوئی کھا پی رہا ہے تو روزہ رکھنے کے بعد دن کے خاص وقت تک کھانا پینا نہیں ہے۔ اگر کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے سوچ رہا ہے تو روزہ اسے ایسی سوچ ترک کرنے کی شرط لگاتا ہے۔اگر جھوٹ بول رہا ہے’واہیات بول رہا ہے ‘گالی دے رہا ہے تو روزہ کی حالت میں اسے ایسے بول بولنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اگر وہ کوئی غیر شرعی باتیں سن رہا ہے تو روزہ دار کانوں کو بند کر لیتا ہے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
سنکیانگ میں دو کروڑ مسلمان آبادہیں ۔ گو ان کی زبان ترکی سے مماثلت رکھتی ہے لیکن لسانی اور ثقافتی اعتبار سے وہ خود کو وسط ایشیائی ریاستوں کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔صدیوں سے سنکیانگ کی معیشت کا دارومدار زراعت اور تجارت پر ہے، جس کا اظہار سلک روٹ پر واقع کاشغرجیسے مصروف شہروں سے ہوتا ہے۔بیسویں صدی کے اوائل میں کچھ عرصے کے لئے الغیور آبادی نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا لیکن انیس سو اننچاس میں یہ علاقہ باقاعدہ طور پرکیمونسٹ چین کے مکمل کنٹرول میںلایا گیا ۔
رپورٹ شائع ہوئی ‘کہ چینی حکومت نے زیادہ تراس مسلم آبادی والے مغربی علاقے سنکیانگ میں سرکاری ملازمین، طلبہ اور اساتذہ کی طرف سے رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ساتھ ہی تمام ریستوران بھی کھلے رکھنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ چینی حکومت جانتی ہے کہ رمضان کے مہینے میں طلوع آفتاب سے پہلے سے لے کر غروب آفتاب تک روزہ رکھنا اسلام کے بنیادی ارکان میں شامل ہے اور دنیا کے دوسرے معاشروں کی طرح چین میں بھی ایغور اور دیگر نسلوں کے مسلمان باشندے روزے رکھتے ہیں۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
”اے مسلمانو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں کمزور مردوں’عورتوں اور بچوںکی خاطر نہیں لڑتے۔ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال کہ اس کے باشندے ظالم ہیں۔ اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی حمایتی بھیج۔اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی مددگار بھیج۔” (سورة النساء آیت نمبر75)
اجتماعی قبریں ان کے اجتماعی احساس کو بیدار نہ کر پائیں۔ ہانپتی’ بھاگتی’کٹتی اور بکھرتی عصمتیں ان کے اجتماعی دل کو موم نہ کرسکیں۔چھتوں’بالکونیوں اور درختوں کیساتھ لٹکتی لاشیں ان کے اجتماعی جسم میں جھر جھریاں پیدا نہ کرسکیں۔ نومولودوں کو وحشی قدموں نے دبوچ ڈالا۔ ننھے ہاتھوں کو سفاک درندوں نے کلہاڑوں کے ساتھ کاٹا’ مسکان بھرے چہروں کو بے رحمی کیساتھ اجاڑا گیا۔ کسی قوم نے آہ نہیں بھری’کسی بھی ملک نے چیخ نہ ماری۔ سات ارب انسان’ انسانی حقوق کی لاکھوں تنظیمیں’ ڈیڑھ ارب مسلمان’ سینکڑوں ممالک۔ دنیا کے منصف لاتعلق۔آخر نسل کشی کے اس بہیمانہ وارداتوں پر دنیا بولتی کیوں نہیں۔ صرف اس لئے کہ روہنگیہ لوگ مسلمان ہیں۔ صرف اس لئے کہ وہ کلمہ گو ہیں۔ صرف اس لئے کہ وہ اسلام کے پیروکار ہیں۔ ان کی زبانوں پر اللہ اکبر’ محمد رسول اللہ’ سبحان اللہ جیسے الفاظ ادا ہوتے ہیں۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
ضد کا کوئی علاج نہیں۔محض احتجاجی سیاست کی بُنیاد پر قد بڑھانے ہوں تو یہ مُلک اس طرز سیاست کے لئے بہت ہی زرخیز ہے۔لیکن اگر واقعتا مقصد کاروباری ترقی اور ذہنی و سماجی سکون ہے تو پھر یہ فلسفہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ رات آٹھ بجے مارکیٹیں بند کرنے سے بزنس کمیونٹی تباہ ہوجائے گی۔ دنیا بھر کے اوقات کار کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ روزانہ آٹھ گھنٹے کا کام ایک نارمل لائف اسٹائل کے لئے بہترین ٹائم ٹیبل ہے۔ مزدور اور کارکن کے بنیادی حقوق بھی یہی طے ہوئے ہیں کہ آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہ لیا جائے ۔پاکستان ایسے خوش نصیب ملکوں میں شمار ہوتا ہے جہاں اوقات نماز کی پابندی ہماری عمومی زندگی کا حصہ ہے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
پہلے تو ہم سب پاکستانیوں کو بانیان پاکستان کا مشکور ہونا چاہیے کہ جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں ہمیں ایک ایسا خطہ ارضی لے دیا جس کی جغرافیائی اہمیت ہر بدلتے منظر نامے میں بڑھتی جارہی ہے ۔ اگر فرصت ہو تو باوضو ہوکر علامہ اقبال ‘ قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح جیسی ہستیوں کے لئے فاتحہ خوانی ضرور کرنی چاہیے۔پاکستان کو عالمی سطح پر سرمایہ کاری ضرور کرنی چاہیے۔پاکستان کو عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے لئے بہترین ملک قرار دیا جاتا رہا ہے ۔تھوڑے سے حالات سنبھلے ہیں اور چین و پاکستان نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ٹریڈ کو ریڈور کی تعمیر کا معاہدہ کر لیا ہے جو دراصل شاہراہ خوشحالی ہے۔پینتالیس ارب ڈالر کے معاہدے جوں جوں زمین پر اترنا شروع ہوں گے۔ معاشی سرگرمیاں تیز ہونا شروع ہوجائیں گے۔انجینئر اور مزدورتو ایک مکان بناتے وقت بھی ضروری ہوتے ہیں یہ تو تین ہزار کلو میٹر طویل کوریڈور ہے۔سینکڑوں پل بننے ہیں۔ کئی بلڈنگز تعمیر ہونی ہیں۔ کئی برس لگنے ہیں۔ بے روزگاری کا خاتمہ یقینی دکھائی دیتا ہے۔بجلی پیدا کرنے کے کئی منصوبے لگنے ہیں۔ وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کے مطابق 2018ء تک بجلی کے منصوبے مکمل ہوجائیں گے اور اگر پہلے سے شروع منصوبوں پربھی تیز رفتاری کے ساتھ کام شروع رہا تو بجلی کی پیداوار کا تخمینہ بارہ سے پندرہ ہزار میگاواٹ کا ہے۔ اگر آئندہ تین برس میں بجلی کی کمی پوری ہوگی تو پاکستان کے اندر پہلے سے موجودہ انڈسٹری کا پہیہ بھی پوری رفتار کے ساتھ گھومے گا اور لوگوں کے دن پھریں گے۔ عام آدمی کو بھی عزت کے ساتھ تو روٹی کمانے کا اپنے ملک کے اندر ہی موقع پیدا ہوجائے گا۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Dec 08
|
Akhbar-e-Haq, Al-Akhbar, Al-Sharq, Business Times, Daily Abtak, Emaan, Islam, Multi News, Musalman, Pardes, Sarkar
|
Click here to View Printed Statement
ایسا کبھی ہوا نہیں کہ دنیا سے شر مکمل طورپر ختم ہوگیا ہو۔انسان کے اندر شر کی قوتیں خیر کی طاقتوں سے ہمیشہ نبردآزما رہتی ہیں ۔آپ اسے حضرت انسان کی فطرت کہہ سکتے ہیں ۔ان شرانگیز طاقتوں کو آپ نیگیٹیو فورسز کا عنوان دے سکتے ہیں ۔قرآن انہیں شیطانی طاقتوں کا نام دیتا ہے ۔ہر منفی سوچ ،ہر تخریبی تصور ہر انسان دشمن منصوبہ ،ہرابلیسی حربہ چاہے اس کا محل وقوع انسان کی اپنی ذات ہو ،اس کا ماحول ہو،ملک ہویاسرزمین ہو ،شیطان ہی کی کارستانی قرار پائے گی۔ہوس لالچ،ظلم ،استبداد ،بدعنوانی ،بدامنی،بد عہدی ،بے وفائی ،دھوکہ دہی ،نوسر بازی ،بزدلی ،منافقت،ہیجان انگیزی ،خیانت،جھوٹ ،فراڈ ،بے ادبی ،فریب کاری ،بعض وعناد،انا پرستی ،چوری ،ڈاکہ زنی ،قتل وغارت اور وحشت وبربریت یہ تمام وہ بیماریاں ہیں جنہیں شیطان نے ایجاد کیا ہے اور وہ کمال ہوشیاری کیساتھ انسانی دل ودماغ میں ان کی پیوندکاری کرتا ہے اور انسان کو شرکے راستے پر ڈال دیتا ہے ۔تشکک اور بے یقینی ،مایوسی اور غفلت جیسے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر شیطان جب حملہ آور ہوتا ہے تو بڑے بڑے پختہ عزم انسان ریت کا ڈھیر ہوجاتے ہیں ۔شیطان کا تصور ہر مذہب اور عقیدے کے پیروکاروں میں اپنے اپنے ناموں اور حوالوں سے موجود ہے ۔قرآن نے اس تصور کو بڑے بلیغ پیرائے میں بیان فرمایا ہے ۔”بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن سمجھو“ حدیث نبوی ہے ‘
”شیطانی وسوسے تمہارے وجود میں خون کی طرح گردش کرتے ہیں “ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
معروف معنوں میں نظرء یہ پاکستان دو قومی نظرء یہ ہے جس کی بنیاد پر 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور پاکستان معرض وجود میں آگیا۔قائداعظمؒ انگریز سامراج اور ہندو اکثریت کو اپنی سالہا سال کی جدوجہد کے دوران یہ باور کراتے رہے کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو دو قومیں ہیں جو تہذیبی‘مذہبی‘سیاسی اور تاریخی لحاظ سے بالکل مختلف ہیں ۔ہندوؤں نے مسلمانوں سے اپنی سدا بہار نفرت کے ذریعے بالآخر انگریزوں کو قائداعظمؒ کا مؤقف تسلیم کرنے پر آمادہ کردیا اور پاکستان کا قیام ممکن ہوگیا۔
دو قومی نظریہ نے ہی ثابت کیا کہ قومیں زبان‘رنگ اور نسل کے اعتبار سے ہی مختلف نہیں ہوتیں بلکہ مذہب کی بنیاد پر ان کی جداگانہ حیثیت قائم ہوتی ہے۔ اقبالؒ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا‘ قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘۔ہندوستان کے رہنے والوں کا رنگ ایک جیسا تھا‘ زبان ایک جیسی تھی اور شائد نسلی حوالے بھی ایک جیسے تھے۔ذات کے اعتبار سے ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہوئے تھے لیکن مسلمان اللہ کے پیروکارجبکہ ہندوبت پرست۔ اگر تو اسلام کی جگہ کوئی اور مذہب ہوتا تو شائد معاملہ مختلف ہوتا لیکن اسلام کی تعلیمات مسلمانوں کو غیر مسلموں کی سماجی اور مذہبی برتری قبول کرنے سے روکتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہزار سال تک مسلمان اور ہندو مشترکہ طور پر اس خطے میں ز ندگی گذارتے رہے تھے لیکن یہ اسی صورت ممکن ہوا تھا کہ مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود سیاسی اور مذہبی طور پر بالاتر تھے اور حکومت مسلمانوں کے پاس تھی۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اپنی ریاست قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ اسلام کا ہی سچاجذبہ تھا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنے پر اُبھارا۔ لہٰذا نظریہ پاکستان دراصل نظریہ اسلام ہی ہے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
کائنات کا دولہا انسان اللہ پروردگار عالم کی تخلیق کا بہترین شاہکار ہے۔ رب کائنات نے اسے نعمتوں کے اتنے
انبار عطا فرما دیے کہ جنہیں دیکھ کر ذرا سا غور کرنے پر ہمیں اللہ نظر آنے لگتا ہے۔ اللہ خود اپنے کلام میں فرماتا ہے”تمہارے نفوس میں میری نشانیاں موجود ہیں تو کیا تم ان پر غور نہیں کرتے”۔
ہم اپنی ذات سے ذرا باہر نظر دوڑائیں تو سورج’ چاند’ ہوا’ پانی ‘ستارے آسمان’زمین اور جانور سب کے سب قدرت کی نشانیاں ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت انسان کی ایسے خدمت میں جتے ہوئے ہیں جیسے ان کا ہم سے بہت بڑا کام پھنسا ہوا ہے۔ ان پر نگاہ دوڑا کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سورج چمکتا’چاند دمکتا’ستار روشن’ سمندر موجزن’ ہوائیں چلتی’ پھول کھلتے’پھل پکتے اور جانور سواری و غذا کے لئے پیدا ہی ہمارے لئے کئے گئے ہیں۔ احساس کچھ یوں ہوتا ہے کہ جیسے ہم آقا ہیں اور یہ ہمارے خدمت گزار حالانکہ اصل صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ان سب سے پوچھیے کہ اگر انسان نہ ہو تو تمہاری صحت پر کیا اثر پڑے گا تو یہ سب کہیں گے ہماری بلا سے۔ مگر انسان ان کے بغیر ایک پل بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Sep 10
|
Business Times, Ittehad, Jammu Kashmir, K-2, Kashmir Link, Kashmir Post, Metro Watch, Nawa-i-Waqt, Pardes, Sarkar, Talwar
|
Click here to View Printed Statement
یہ قبل مسیح کا قصہ نہیں صرف چودہ سو برس پہلے کی بات ہے کہ مکہ کی پہاڑی پر چڑھ کر اللہ کے رسولۖ اہل مکہ سے مخاطب ہوتے ہیں اور سوال کرتے ہیں”’ کیا میں نے کبھی آپ سے جھوٹ بولا ؟جواب آتا ہے اے محمدۖ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور آپ جو کہیں گے سچ کہیں گے۔ یوںاللہ کے رسولۖ نے سب سے پہلے لوگوں سے اپنے بارے میں سچائی اور کردار کی گواہی لی اور پھر توحید کا پیغام دیا۔ سیرت رسولۖ کا یہ حوالہ اس لئے دے رہا ہوں کہ ہمارے اکثر دانشور اور مفکر انقلاب اور تبدیلی کی بات تو کرتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ انسانی سماج میں رہنمائی اور رہبری کے لئے شعلہ بیانی اور شخصی مقناطیسیت ایک حد تک معاون ہوسکتے ہیں
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
اثر ہوتا ہے ۔تقریروں اور تحریروں کا اثر ہوتا ہے۔ جب آپ بار بار لوگوں کو بتائیں کہ ”ملک مکمل طور پر آزاد نہیں ہے اور اس پر ”بادشاہت” نے قبضہ کر لیا ہے تو ان لفظوں کی معصوم انسانی ذہنوں میں خوفناک تصاویر بننا شروع ہوجاتی ہیں۔بادشاہ بڑا ظالم ہوگا۔ اپنے مخالفین کو اندھے کنویں میں ڈالوا دیتا ہوگا۔ جو بھی اختلاف کرے گا اسی وقت سرتن سے جُدا ہوجائے گا۔بادشاہ کی سینکڑوں باندیاں ہوں گی۔محل سرا میں گانے بجانے اور رقص و سرور کی محفلیں سجتی ہوں گی۔ کتنے جذبوں کا ارمان ہوتا ہوگا۔بادشاہ ہاتھی پر چڑھ کر شکار کو جاتا ہوگا اور اس کے سپاہی بے گناہ جانوروں کو پکڑ کر اس کے سامنے لاتے ہوں گے اور وہ گولی چلا دیتا ہوگا” ایسے ظالم بادشاہ کے خلاف جنگ کرنا جہاد ہے
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
ایک بداندیش کالم نگار نے ”پانچ لاکھ خودکش” کے عنوان سے کالم لکھ کر قبائلی عوام کے جذبہ حب الوطنی کو مشکوک ٹھہرایا ہے۔دانشوروں کا المیہ ہی یہی ہے کہ وہ ان جانے خوف پھیلا کر سامنے کی خوبصورت حقیقتوں کا مذاق اڑانے میں ہی کمال قلم و علم ڈھونڈتے ہیں۔ کیا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نہیں ہے کہ شمالی وزیرستان میں ایک خاص فلسفہ کے حامل مسلح گروہ اپنی امارت قائم کرکے پاکستان کو تاخت و تاراج کرنے کی جانب بڑھتے چلے آرہے تھے۔ محب وطن قبائلی لوگ شروع شروع میں مزاحمت کرتے رہے اوروہاں مقامی رہائشیوں اور غیر ملکی جنگجوئوں کے درمیان خونی جھڑپیں بھی ہوتی رہیں لیکن جب ریاست اپنے لوگوں کا تحفظ نہ کرسکی اور وہاں کی سول انتظامیہ بھی خوفزدہ ہوکر ان خارجی عناصر کو راستہ دینے لگی تومقامی عوام خاموش ہوگئے۔ہمارے بعض دینی حلقے بھی جہاد کے نام پر گمراہ ہوئے ۔
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
پاکستان میں انفرادی نیکیوں کی بہار رہتی ہے ۔ زہدوتقویٰ کی ایسی ایسی مثالیں ہیں کہ قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ شائد انہی نیک بندوں کی بدولت ہمارے اجتماعی گناہوں کی ابھی پکڑ نہیں ہوئی اور ہم گرتے پڑتے قومی زندگی کے سفر پر گامزن ہیں۔ اگر پاکستانی معاشرت سے محدود ے چند متقی لوگوں کو منہا کردیا جائے تو یوں محسوس ہوگا کہ اسلامی اقدار اور تعلیمات کا قدم قدم پر مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ اس احساس کو مہیمزاس وقت لگتی ہے جب رمضان المبارک کا مقدس ماہ اپنی رحمتیں لئے آپہنچتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ اس رحمتوں والے مہینے کا استقبال ضرور کرتا ہے’ لیکن اس استقبال کے پیچھے کارفرمانیت تقویٰ اور پرہیزگاری نہیں بلکہ نمودونمائش فضول خرچی’ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی جیسے منفی رجحانات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اس استقبال میں آج کل پیش پیش ہمارا میڈیا ہے۔استحصالی میڈیا اس قدر بے رحم ہے کہ وہ صلہ رحمی’ ایثار’ پردہ پوشی اور حاجت روائی جیسے انتہائی خوبصورت ‘انسان پرور اور صحیح اسلامی جذبوں کودبوچ کر ان کی جگہ ”ریٹنگ” اور” گلیمر” کو حاوی کررہا ہے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
گزشتہ بجٹ میں اعدادوشمار کے ذریعے عوام سے جو وعدے کئے گئے وہ پورے نہیں ہوسکے۔بجلی’ گیس’ دہشت گردی’ بیروزگاری اور امن وامان کی صورتحال سب کے سامنے ہے محض نعروں اور طفل تسلیوں سے یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔آج بجٹ کا ایک سال پورا ہوگیا لیکن عام آدمی کی حالت نہیں بدلی اسے بنیادی ضروریات کے حصول کے لئے کن مشکلات کا سامنا ہے’حکمرانوں کو اس سے سروکار نہیں۔مارکیٹ میں اشیائے صرف کی قیمتوں پر کنٹرول نہیں ہے’روزانہ اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں’ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ گیس اور بجلی ‘پٹرول تین ایسی چیزیں ہیں’ ان کی قیمتوں میں ایک پیسہ بھی بڑھا دیا جائے تو ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ پورا سال ان تین چیزوں کی سپلائی اور ڈیمانڈ اس قدر رہی کہ سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہی دیکھتے رہے اور آئندہ بھی ان قطاروں میں کمی کی صورت دکھائی نہیں دیتی’نئے بجٹ سے خوش کن توقعات نہیں ہیں۔ یہ الفاظ کا گورکھ دھندا ہوگا۔پرتعیش اشیاء پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء پر ٹیکس لگانے سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ لگژری آئٹمز پر ٹیکس عائد کرے۔
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
وجیہہ الدین احمد انتہائی منکسر المزاج ہیں۔ انہیں اپنے مشن سے عشق ہے۔ ان کا پورا خاندان ہی شائد ایسے مشنری مزاج کے افرادپر مشتمل ہے۔ربع صدی سے علم وحکمت کی تعلیم عام کرنے والے اس علمی گھرانے کو اپنے سربراہ مولوی ریاض الدین احمدمرحوم کی قومی سطح کی کاوشوں اور علمی نوعیت کی سرگرمیوں پر بہت فخر ہے اور وہ ان کاوشوں کو اپنی خاندانی تاریخ کا ایک سنہری باب تصورکرتے ہیں۔مولوی ریاض الدین احمد مرحوم کے سب سے چھوٹے بیٹے جناب وجیہہ الدین احمد سے کراچی کے علاقے ناظم آباد میں واقع جناح یونیورسٹی فار وومن کے وسیع وعریض کیمپس میں ملاقات ہوئی۔جناب وجیہہ الدین احمد گوناں گوں مصروفیات کے باوجود خوش مزاج شخص ہیں۔ٹھہرے ہوئے لہجے میں اپنا مدعابیان کرنے کے ماہر بھی ہیں۔
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
ابھی تک تسلی بخش وضاحت کا انتظار ہے۔حکومت پاکستان نے ”دوست ملک“ سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحفے کے پیچھے کارفرما معاملے کو افشاءنہیں کیا۔قوم کو تسلی دی گئی ہے کہ ” ایران اور سعودی عرب سمیت تمام برادر ممالک سے متوازن تعلقات قائم کئے جائیں گے“۔ ڈالر کی بے قدری کے پیچھے محرکات میں سب سے بڑا محرک یہی ڈیڑھ ارب ڈالرز ہیں جو مبینہ طور پر سعودی حکومت نے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی ذاتی درخواست پر مملکت اسلامیہ کو بطور تحفہ دیئے ہیں۔ ان میں سے نصف سے زائد قومی خزانے میں ”پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ“ کے عنوان سے منتقل ہوچکے ہیں اور باقی بھی عنقریب آنے والے ہیں۔اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر دوست ملک کی طرف سے کی جانے والی یہ مہربانی کسی وقت واپس لے لی گئی تو ڈالر پھر بے قابو ہو کر روپے کو روند ڈالے گا۔
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
|