Feb 12

Click here to View Printed Statement

کون نہیں جانتا کہ اکتوبر 1948ء میں بھارت نے فضائی برتری کا سہارا لے کر 50 ہزار غاصب اور جارح مسلح بھارتی فوج کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کیا۔ واضح رہے کہ انہی دنوں بھارت حیدر آباد کن’ بھوپال اور جونا گڑھ کی ریاستوں پر قبضے کے لئے برہنہ عسکری جارحیت کا ارتکاب کرچکا تھا۔ جب عالمی اداروں اور عالمی برادری نے اس کا نوٹس نہ لیا تو بھارتی توسیع پسند اور جنگی جنونی حکمرانوں کے حوصلے بڑھ گئے اور وہ ”وادی جنت نظیر کشمیر” کو بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا دوزخ بنانے پر بلاخوف و خطرکاربند ہوگئے۔ مقبوضہ وادی جموں وکشمیر 68 برسوں سے بھارتی افواج کے غاصبانہ قبضے میں ہے اور اس کی اکثریتی مسلم آبادی کو بھارتی حکومت ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت نازیانہ تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ اس میں نوجوانوں کا قتل عام’ معصوم بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنانا اور عورتوں کی آبروریزی شامل ہے۔جنیوا میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے لئے تیار کی گئی اپنی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کرسٹوف ہینز بھارت پر زور دے چکے ہیں Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Feb 08

Click here to View Printed Statement

اس امر میںکوئی شبہ نہیں ہے کہ حکیم الامت علامہ ا قبال کو کشمیر کے جذباتی’روحانی اور ایسی بے پناہ محبت تھی کہ اس کا اظہارانہوں نے اپنے کلام ‘خطوط اور عمل سے کئی مواقع پر کیا۔ علامہ اقبال کے بزرگوں کا تعلق کشمیر سے تھا۔انہیں اس پر ناز تھا کہ اُن کی شریانوںمیں دوڑنے والا لہوکشمیر کے شفق فام چناروں کی طرح سرخ ہے۔
ایک جگہ وہ فرماتے ہیں’
تنم گلے زخیابان جنت کشمیر
ولم ز خاک حجازو نواز شیرازاست
یعنی کہ ”میرا بدن گلستان کشمیر کا ایک پھول ہے اور میر ا دل ارض حجاز اور میری صدا شیراز سے ہے ”۔ کشمیر سے جدی تعلق رکھنے کے باوجود انہیں اس امر کابھی گہرا احساس تھا کہ وہ اس وادی جنت نظیر کا مشاہدہ بچشم خود نہیں کرسکے۔ یہ احساس محرومی اشعار کے قالب میں یوں ڈھل کر سامنے آیا۔
کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے
اس باغ جاں فزا کا یہ بلبل اسیر ہے
ورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد
جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے
موتی عدن سے’ لعل ہوا یمن سے دور
یا نافہ غزال ہوا ختن سے دور
ہندوستان میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر
بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دُور Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Feb 03

Click here to View Printed Statement

ہر عام انتخابات کے موقع پر کروڑوں رائے دہندگان اپنے ووٹ کا آزادانہ اور بے باکانہ استعمال کرکے آئندہ 5 سال کے لئے نئی پارلیمنٹ منتخب کرنے کے لئے اپنے گھروں سے جوق در جوق نکلتے’اپنے حلقوں میں قائم پاکستان الیکشن کمیشن کے باضابطہ پولنگ سٹیشنوں تک پہنچتے اور اپنا ووٹ تئیں جس امیدوار کو اہل سمجھتے ہیں دیتے ہیں۔ووٹ بلاشبہ ایک قیمتی امانت ہے ۔ یاد رہے کہ امانت کے بارے میں قرآنی حکم یہ ہے :”بے شک اللہ تمہیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ تم اپنی امانتیں اُن ک اہل لوگوں تک لوٹا دو” یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ووٹ اقتدار’اختیار’قوت’طاقت اور حکومت کا نقش گر اور عکاس ہوتا ہے۔ووٹ محض کاغذ کی ایک پرچی نہیں ہوتا کہ جس پر کوئی بھی ووٹر کسی بھی امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگا کر اُسے بیلٹ بکس میں ڈال آتا ہے۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Jan 28

written by deleted-LrSojmTM

Nov 10

Click here to View Printed Statement

اس دور کا سب سے سنگین فکری انتشار یہ ہے کہ ہر طبقہ اپنے حقوق کی بات تو کرتا ہے لیکن فرائض کی بات سے بدکتا ہے ۔ ہم جو کام کرتے ہیں اسے کے نتائج کی ذمہ داری بھی اٹھانی چاہئے ۔ باقی شعبوں تک تو یہ احساس کسی نہ کسی طور پایا جاتا ہے لیکن میڈیا شائد وہ واحد شعبہ بن گیا ہے جس کو آزادی ہے کہ وہ جو چاہے لکھے ، چھاپے یا دکھائے لیکن وہ اپنی کسی بھی خبر ، تصویر یا فوٹیج کے منفی نتائج کی ذمہ داری لینے پر تیا ر نہیں ہے ۔ اگر کہیںسے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی آواز اٹھتی ہے تو میڈیا تنظیمیں اور صحافتی انجمنیں واویلا مچانا شروع کر دیتی ہیں کہ یہ آزادی صحافت پر قدغن ہے ۔ ایسا ہی ایک واویلا پریس کونسل آف پاکستان نے مچایا ہے ۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Nov 02

Click here to View Printed Statement

وہ کونسا شہر تھا جسے کسی گروہ نے سب سے پہلے بندکیا تھا اس سوال پر تاریخ میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ہماری حالیہ تاریخ میں شہر بند کرنے کے واقعات عراق میں پیش آئے ہیں۔داعش نے کئی کئی ماہ مختلف شہروں کو گھیرا اور شہریوں کو یرغمال بنائے رکھا ہے۔ فاتحین کے دور میں حملہ آور فوجیں کسی شہر کا گھرائو کرتیں’ اشیائے خوردونوش کی نقل و حمل پر پابندی لگاتیں اور اس وقت تک شہر کا محاصرہ جاری رہتا جب کہ شہری بھوک پیاس سے مرنا شروع نہ ہوجاتے ۔ اس کے نتیجے میں بادشاہ کے خلاف بغاوت پھیل جاتی اور باغی عوام یا فوج کا کوئی حصہ شہر کے دروازے کھول دیتا۔ اس دور میں شہر کے اردگرد فصیلیں ہوتی تھیں۔ فصیلوں پر چوبرجیاں اور چوبرجیوں میں تیر بردار محافظ مستعد کھڑے ہوتے تھے۔کشت و خون ہوتا اور شہر تاراج ہو جاتے ۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Oct 20

Click here to View Printed Statement

ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اُڑی پر حملے کے بعد سفارتی محاذ پر جس برق رفتاری کا مظاہرہ ہمیں کرنا چاہیے تھا وہ نہیں ہوسکا۔ اور اس سست روی کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھ لیا ہے۔سارک کا پلیٹ فارم بھارت نے عملاً ہتھیا لیا ہے۔ بنگلہ دیش اور افغانستان کی بات چھوڑیے۔سری لنکا اور نیپال جیسے ممالک بھی پاکستان کا ساتھ دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ مجبوراًپاکستان کو بطور میزبان سارک کانفرنس ملتوی کرنا پڑی۔ یہ ایک سفارتی شکست ہے۔ بھارت نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کا خوب تماشا لگا رکھاہے۔ امریکہ تو بھارت کی بلائیں لیتے تھکتا نہیں ہے۔اب روس کے صدر نے بھارت جاکر اربوں ڈالر کے معاہدے کر ڈالے ہیں ۔ اگر چین ہماری مدد کو نہ آتا تو برکس کے اجلاس سے مزید اینٹیں برسنے کا امکان تھا ۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Aug 11

Click here to View Printed Statement

ہمارے والدین ”کرپشن” کے لفظ سے واقف نہیں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد رشوت ستانی کی اصطلاع عام ہوئی تھی۔ بعض بیوروکریٹس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت بڑے رشوت خور ہیں۔ تقسیم کے وقت جھوٹے کلیم بنانے اور ان جعلی کاغذات کے عوض رشوت لے کر زمینیں اور جائیدادیں الاٹ کرنے والوں کا چرچا رہتا تھا۔ جب عدالتی نظام پھیل گیا تو بعض ججوں کے بارے میں بھی خبریں آنا شروع ہوئیں کہ فلاں جج رشوت خُور ہے۔ رشوت ستانی ایک ایسا الزام اور جُرم تھا کہ عام لوگ کسی راشی افسر کو دیکھ لیتے تو کُھلے عام بیزاری کا اظہار کرتے دکھائی دیتے تھے۔ بعض دفاتر کے اندر ”رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں” کی حدیث مبارکہ جلی حروف میں لکھی ہوئی تھی۔ رشوت خوری کیخلاف سماجی اور مذہبی جماعتیں مہمات بھی چلاتی تھیں۔ رشوت خور عہدیدار کے ساتھ کوئی معزز شہری اپنی بیٹی بیاھنے پر تیار نہیں ہوتا تھا۔ پولیس افسران کے خلاف رشوت کے مقدمات بننے شروع ہوئے

Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

May 18

Click here to View Printed Statement

پچاس کے لگ بھگ مسلمان ممالک کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کے دُکھ درد بانٹنے اور مسلمان ملکوں کے اندر مسلمانوں کے ساتھ جاری ناروا سلوک پر بولنے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔گذشتہ نصف صدی سے سعودی عرب کو مسلم ورلڈ کا رہنما تصّور کیا جاتا تھا۔ کبھی کبھی اس اعزاز کا ایران بھی خود کو حقدار سمجھتا ہے۔ لیکن ایران اور سعودی عرب کی آپس میں نہ ختم ہونے والی چقپلش نے متفقہ قیادت و سیاست کے خواب چکنا چور کردیئے ہیں۔ ان حالات میںترکی کو توفیق ہوئی اور جہاں کہیں مسلمانوں پر اُفتاد پڑتی ہے ‘ترکی کے صدر جناب طیِبّ اُردگان تمام تر خطرات مول لے کر مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔فلسطینی مظلوموں کے لئے خوراک پہنچانے کا معاملہ ہو یا میانمیر کے بے سروساماں مہاجرین کی دادرسی ہو‘ اُردگان آگے بڑھ کر دُکھی مسلمانوں کو گلے لگاتے اور غم اور الم کی حالت سے باہر نکالتے ہیں۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

May 09

Click here to View Printed Statement

خیبرپختونخواہ کے گورنر جناب اقبال ظفر جھگڑایوم ہلال احمر کی تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ وہ اسٹیج پر خطاب کے لئے آئے۔ اُن کی تقریر کا پہلا حصہ انگریزی میں تھا کیونکہ تقریب میں غیر ملکی مہمانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ دوسرا حصہ اُردو میں تھا۔جھگڑا صاحب کے بارے میں میرا خیال تھا کہ اُن کی انگریزی میری طرح واجبی سی ہوگی۔ لیکن اُنہوں نے اس غیر ملکی زبان میں انتہائی شستہ لہجہ اختیار کیا اور ماہر مقرر کی طرح انگریزی سمجھنے والے مہمانوں کو خوب متاثر کیا۔
اُردو میں بھی کمال مہارت رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو دیر سے سہی لیکن جھگڑا جیسے باصلاحیت شخص کو ذمہ داری سونپنے کا بہتر خیال آیا ہے۔ کاش کہ دوسرے شعبوں میں بھی ایسے سچے لوگوں کو آگے آنے کا موقع دیا جائے۔ جناب اقبال ظفر نے بتایا کہ ڈاکٹر سعید الٰہی سے اُن کی ملاقات اکتوبر 2005ء کے زلزلے کے دوران آزادکشمیر میں ہوئی تھی جہاں ڈاکٹر صاحب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر زخمی متاثرین کی طبی امداد میں دن رات مصروف تھے۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

May 06

Click here to View Printed Statement

نفرت کا کاروبار کرنے والوں کی دنیا میں کبھی بھی کمی نہیں رہی۔ تعصب اور تحقیر کے خمیر سے بنے ہوئے امریکی صدارت کے لئے ریپلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممکنہ امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اپنی نفرت انگیز سوچ کے سبب وقتی طور پر اپنے حریف ریپلکن امیدواروں پر سبقت لے گئے ہیں۔انہوں نے اسلام‘ مسلمانوں حتی کہ عیسائیوں کے خلاف مسلسل بدزبانی کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ اُن کی سوچ کو معتدل امریکی حلقے شیطانی سوچ قرار دے چُکے ہیں۔ اُن کے الفاظ کو غلیظ الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ امریکی صدر اُوبامہ نے اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص امریکہ کا صدر نہیں ہوسکتا۔ اس شخص نے امریکہ کا امیج تباہ کردیا ہے اور اگر یہ صدر بننے میں کامیاب ہوگیا تو دُنیا میں امریکہ کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ ہوجائے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز پہلے پاکستان کے غدار شکیل آفریدی کے حوالے سے بھی ایک ”تڑی“ لگائی تھی۔ اس منہ پھٹ امریکی صدارتی امیدوار نے کہا تھا کہ وہ برسراقتدار آکر پاکستان کو حُکم دے گا کہ آفریدی کو ہمارے حوالے کردو اور پاکستان کو ایسا ہی کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان امریکی امداد پر پل رہا ہے۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

May 05

Click here to View Printed Statement

انفاق فی سبیل اللہ سے مراد ضرورت مندوں‘ یتیموں اور بے سہارا لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے مال خرچ کرنا ہے۔قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ہے کہ جو مال تمہاری چند روزہ زندگی میں تمہیں نصیب ہوا ہے اور جسے تم چھوڑ کر جانے والے ہو اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرکے آخرت کا سامان تیار کرو۔سورة الحدید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے‘
”اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاﺅ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب(امین) بنایا ہے“۔
اللہ کی رضا کے لئے ضرورتمندوں کی ضروریات کو پوراکرنا اور اس کے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرنا انفاق فی سبیل اللہ کہلاتا ہے۔
خرچ کرنے کا انداز مختلف ہوسکتا ہے۔ ظاہری اور باطنی طور پر انفاق کرنے کا حکم ہےِ۔یہاں ایک باریک نکتہ سامنے آتا ہے کہ ظاہری طور پر انفاق کرنے یا انفاق کو ظاہر کرنے کی بھی کچھ شرائط ہیں۔آپ اگر ایک ہسپتال بنوا رہے ہیں تو یہ ظاہری انفاق ہے ۔اس سے کسی ضرورت مند کی عزت نفس مجروح ہونے کا اندیشہ نہیں ہے ۔ ایسے کسی فلاحی اور رفاعی پراجیکٹ کے حوالے سے اگر تشہیر کا پہلو نکل رہا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اگر کسی بیوہ یا یتیم کی مدد ہورہی ہے اور کسی طرح کا امدادی سامان تقسیم کرنا ہو تو پھر فوٹو سیشن بہت ہی معیوب لگتا ہے۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Apr 28

Click here to View Printed Statement

قرآن پاک کی سُورة القصص میں بڑی تفصیل سے قارون کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اس قصہ کا مقصد اسلام کے نظام مال و زر کی وضاحت کرنا ہے۔قارون مصر میں فرعون کا نمائندہ تھا جسے بنی اسرائیل قوم کو دبانے کے لئے بے بہا دولت دی گئی تھی۔ اُس کی دولت کا عالم یہ تھا کہ اس کے خزانے کی چابیاں اٹھانے کے لئے دس اونٹ درکار ہوتے تھے۔ دولت نے اسے انتہائی متکبر اور خودسر بنا دیا تھا۔ اس کی دولت کا چہارسوچرچا تھا۔ وہ مال و دولت کو خرچ کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کرتا رہتا تھا۔ قارون کو سمجھایا گیا کہ وہ اپنی دولت جمع کرنے کی بجائے مساکین اور ضرورت مندوں پر خرچ کرے اور اس کے ذریعے اپنی آخرت سنوارے۔ لیکن قارونی نفسیات اس قدر غالب تھی کہ وہ اللہ‘ آخرت اور روزوجزا کا مذاق اُڑاتا اور ہوس زر میں مدہوش رہتا تھا۔
قرآن میں قارون کا عبرتناک انجام بتایا گیا ہے۔ وہ اپنے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اُس کی دولت اس کے کسی کام نہ آسکی۔ اس کا آقا فرعون بھی اسے بچا نہ سکا۔ جو لوگ قارون کے خزانوں سے مرعوب رہتے تھے وہ اس کا خوفناک انجام دیکھ کر شکر بجالائے کہ وہ کم از کم قارون بننے سے بچ گئے تھے۔
ہوس زر میں مبتلا ہر شخص قارون ہے۔ قارونی سوچ کے اسیر امراءکی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ جوں جوں دُنیا کی دولت میں اضافہ ہورہا ہے‘ قارونوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ حالیہ تحقیقاتی رپورٹوں سے پتہ چلا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں دُنیا بھر کے قارونوں کی دولت جمع ہے۔ پاکستانیوں کی بھی کثیر تعداد موجود ہے جن کی بے پناہ دولت کا انہیں خود بھی اندازہ نہیں ۔ پھر یہ رپورٹیں بھی سامنے آئیں کہ دُبئی میں بڑے بڑے قارونوں نے پراپرٹی کے اندر بھاری سرمایہ کاری کردی ہے۔ ملائشیا اور برطانیہ میں بھی ہوس زر کے مجسم مظاہرے دیکھنے کو ملے ہیں۔ دُنیا کے امیر ترین افراد کی سب سے بڑی تعداد امریکہ میں ہے جن کی دولت بینکوں میں پڑی ہے اور اس دولت کا نوح انسانی کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Apr 28

Click here to View Printed Statement

سچائی ہی نظریہ پاکستان کا جوہر ہے۔ نظریہ پاکستان ہی پاکستان کی اساس ہے۔ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران مخالف لابی نے ایک ایک رہنما کے بارے میں مسلسل چھان بین کی۔کردار کشی کی مہم بھی زوروں پر تھی۔ہندو دانشور دن رات اکابرین ملت کے مالی اور اخلاقی معاملات کی کھوج لگاتے رہتے تھے۔آپ سات برس کی آزادی کی جدوجہد کو پڑھ لیجئے۔ مخالفین کے حملوں کے احوال اور الزامات کی بوچھاڑ کا تذکرہ دیکھ لیجئے۔ کہیں ایک جملہ بھی تحریک پاکستان کے رہنماﺅں کے کردار کے حوالے سے سامنے نہیں آئے گا۔ ایک روپے کی کرپشن کا ذکر نہیں ملے گا۔ ہر رہنما صرف ستھرے کردار میں ڈھلا ہوا سامنے کھڑا ہوگا۔قائداعظمؒ کی ایمانداری کی تعریف تو دشمن بھی کیا کرتے تھے۔ میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی بنیادوں میں نہ کہیں ہوس زر ہے نہ کوئی رشوت ہے اور نہ ہی کوئی مالی منفعت سامنے آتی ہے۔ پھر کیا ہوا کہ ہم نے آم کے درخت کا بیج بویا لیکن ہمیں تھور اور بیول کے کانٹوں کی فصل کاٹنا پڑ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں ملک کے ممتاز تجزیہ کار اور کالم نگار جناب جاوید صدیق میرے آفس میں تشریف لائے۔جناب بیگ راج بھی ان کے ہمراہ تھے۔ سیاست میں کرپشن پر بات شروع ہوئی۔ جاوید صدیق بتا رہے تھے کہ تحریک پاکستان کے رہنماﺅں نے قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کے لئے کس طرح کی مالی قربانیان پیش کیں۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Apr 25

Click here to View Printed Statement

میاں محمد نواز شریف کیا سوچ رہے ہوں گے۔شائد وہ یہ سوچ رہے ہوںکہ پاناما لیکس میں اُن کا نام نہیں ہے پھر وہ استعفیٰ کیوں دیں۔ سب سے بڑھ کر وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ استعفیٰ کے حوالے سے اپوزیشن پارٹیوں کی ایک رائے نہیں ہے اس لئے کسی بہت بڑی احتجاجی تحریک کا امکان نہیں ہے۔ اُن کے حسین خیالوں میں یہ خیال بھی انگڑائیاں لیتا ہوگا کہ چین اور سعودی عرب جیسے طاقتور دوست اُن کی پشت پر ہیں اور” سی۔پیک منصوبہ“ اُن کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا اس لئے ان کی وزارت عظمیٰ پاکستان ہی نہیںبلکہ دیگر ممالک کی بھی مجبوری ہے۔وزیراعظم پاکستان یہ خوبصورت سوچ بھی سوچتے ہوں گے کہ پارلیمان میں اُن کی قوت ہے اور پیپلزپارٹی کی اپنی کرپشن میاں صاحب کے لئے بہت بڑا آسرا ہے۔ہزار سوچیں سوچتے ہوں گے لیکن آخر پر پھر سوچتے ہوںگے کہ اگر ”انگلی اُٹھ گئی“ تو وہ کیا کریں گے؟ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اسحاق ڈار‘خواجہ آصف ‘خواجہ سعد رفیق اور شہباز شریف سے ”اگر انگلی اٹھ گئی“ کے بعد کا منظر ڈسکس کر لیا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Apr 21

Click here to View Printed Statement

پاکستانی قوم نے یہ منظر بھی دیکھنا تھا۔پانامہ لیکس کے پردے میں اُٹھنے والے سیاسی طوفان نے جہاں حکمرانوں کی ہوائیاں اُڑائیں وہیں سیاستدانوں کی حواس باختگی بھی سامنے آئی۔ یہ منظر ہم سب نے دیکھا کہ وزیراعظم نوازشریف‘وزیرداخلہ چوہدری نثار‘وزیراعظم کا خاندان اور حزب اختلاف کے رہنما سب کے سب ایک ہی وقت میں لندن یاترا کر رہے تھے۔عمران خان کو بھی لندن جانے کی جلدی تھی۔ ان کے ساتھ ان کی مبینہ طور پر ”اے ٹی ایم مشینیں“ بھی لندن میں تھیں۔ الطاف حسین پہلے ہی لندن میں خود ساختہ جلا وطنی سے لطف اندوز ہورہے ہیں جبکہ آصف علی زرداری بھی بسلسلہ ”علاج“ اسی دیارغیر میں مقیم ہیں۔ بقول شاعر‘
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میّر ہوئے
سب اسی زلف گرِہ گیر کے اسیر ہوئے
یوں لگتا تھا جیسے پاکستان تو آزاد ملک ہے لیکن اس کا حکمران طبقہ ابھی تک آزاد نہیں ہوسکا۔ان کا کاروبار اور اولاد دونوں باہر ہیں۔اثاثے باہر ہیں۔ علاج باہر ہوتا ہے اور سیاسی مشاورت بھی انگلینڈ میں ہوپاتی ہے۔ جب بھی یہ طبقہ کسی ایمرجنسی‘ کسی سیاسی ہلچل یا کسی کرپشن کہانی کا شکار ہوتا ہے لندن کی طرف بھاگتا ہے۔ ان کی لگامیں اب بھی کسی برطانوی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں میں ہیں۔انگریز کا ملک آج بھی ہمارے غلامانہ ذہنیت کے مارے طبقہ اشرافیہ کے لئے آخری جائے پناہ ہوتی ہے۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Mar 28

Click here to View Printed Statement

پنجاب میں بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع ہو چُکا ہے۔ سانحہ اقبال پارک نے حکمرانوں کو جگا دیا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آپریشن کے لئے شائد کسی خونی المیے کا انتظار کیا جارہا تھا۔ ذرائع ابلاغ اور حزب اختلاف کی طرف سے بار بار یہ سوال اُٹھایا جارہا تھا کہ آخر پنجاب میں دہشت گردوں کیخلاف رینجرز کا آپریشن کیوں نہیں ہورہا۔ یہ الزامات بھی تواتر سے لگے اور لگ رہے ہیں کہ پنجاب حکومت میں بعض وزراء دہشت گرد گروپوں کے حامی ہیں اور وہ اس آپریشن کی راہ میں ہر باررُ کاوٹ بن جاتے ہیں۔ بعض حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ پنجاب میں آپریشن کرنے کا ردعمل بہت ہی شدید ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس لئے حکومت اسے پولیس اور دیگر اداروں کی کارروائیوں تک محدود رکھنا چاہتی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں دو سو کے لگ بھگ ایسے مدرسے پائے جاتے ہیں جن کو بیرونی ممالک سے فنڈنگ ہوتی ہے Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Mar 22

Click here to View Printed Statement

عافیہ صدیقی کی واپسی ممکن نہیں۔حکومت پاکستان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو بتایا کہ چونکہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ قیدیوں کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں اس لئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان لانا ممکن نہیں ہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے ہائیکورٹ کے جسٹس انوارالحق قریشی کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی حوالگی کے لئے کئے گئے اقدامات سے آگاہ کیا اور مئوقف اختیار کیا کہ موجودہ حالات میں ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان لانا ناممکن ہے۔عدالت نے سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کردی۔حکومتی مئوقف پاکستان کے محب وطن اور انصاف پسند حلقوں پر بجلی بن کر گرا ہے۔مسلم لیگ (ن) نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آکر پاکستان کی بیٹی عافیہ کو پاکستان واپس لانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔

Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Mar 22

Click here to View Printed Statement

دل دہلا دینے والی تصویریں سامنے پڑی ہیں۔ گاندھی کے پیروکار اس قدر سنگدل ہوجائیں گے۔ یہ کوئی ہندو مسلم فسادات کی تصویر نہیں۔ ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق دو مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا بھیانک منظر ہے۔ تصویر میں دو نوجوان دکھائی دے رہے ہیں۔ اُن کے گلے میں کسے ہوئے پھندے ہیں۔ اُن کے لٹکتے ہوئے دھڑ ہیں۔آنکھیں باہر کو آگئی ہیں۔ وہ درختوں پر لٹکے ہوئے ہیں۔ ان کا اصلی جُرم یہ ہے کہ مسلمان ہیں۔ہندو انتہا پسندوں نے ان پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے گائے خریدی ہے۔ جھاڑ کھنڈ کی سرکار’ پولیس’ عدلیہ’ سماج سب کے سب ایک ہی طرح کی ذہنیت یعنی مودی ذہنیت کا شکار ہیں۔ کسی نے نہیں روکا’کوئی آگے نہیں آیا۔ کسی نے مسلمانوں کا مئوقف سننے کی زحمت نہیںکی۔مائیں روتی رہیں’ بہنیں منتیں کرتی رہیں’ بچے بلبلاتے رہے۔ لیکن ظالم اور سفاک ہندوئوں نے جنگلوں میں لے جا کر ان مسلمانوں کو شہید کردیا۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ ہر روز یہی سفاکیت ہے۔ بھارتی ادارے رپورٹیں دے چُکے ہیں کہ کس طرح بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔

Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Mar 08

Click here to View Printed Statement

انسان نے جب بھی فطرت کے خلاف قدم اٹھایا ہے ‘ہمیشہ لڑکھڑایا ہے۔میڈیکل سائنس نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ اب دو ماہ قبل رحمِ مادر میں جھانک کر پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ دُنیا میں آنے والا نیا مہمان بیٹا ہے یا بیٹی؟ اس سائنسی سہولت نے انسانوں کے لئے نئی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں۔ معاشی اور سماجی دبائو سے متاثر ماں باپ خطرناک حد تک غیر فطری عمل کے گذرتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بیٹی یا بیٹے کے حوالے سے کچھ زیادہ فکر مندی نہیں پائی جاتی اس لئے ان معاشروں میں الٹراسائونڈ کو بیٹیاں مارنے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا لیکن غریب ملکوں میں یہ سہولت ایک عذاب بن گئی ہے۔ ہمسایہ مُلک بھارت میں ایسے کلینک کُھلے ہیں جو بیٹیوں کو رحم مادر سے باہر آنے سے پہلے ہی قتل کردیتے ہیں۔یونیسف کی چونکا دینے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے اندر ہر سال پانچ لاکھ بچیوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ نومولود بچیوں کو مارنے کے دل دہلا دینے والے طریقے نکالے گئے ہیں۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Mar 01

Click here to View Printed Statement

پچیس برس سے اسلام آباد کے دیہی علاقے میں متوسط اور غریب گھرانوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف ڈاکٹر نعیم غنی سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے وہ بے سکول بچوں کی دردناک کہانی سناتے ہیں۔”جوبچے کسی مدرسے یا سکول میں پڑھ رہے ہیں حکومت کی ساری توجہ ان کی طرف ہوتی ہے لیکن وہ اڑھائی کروڑ بچے جن کے لئے نہ سکول ہے نہ اُستاد وہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔اُن کے بارے میں کسی کو فکر ہی نہیں”۔”حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جس ملک میں تعلیم کا بجٹ ہی دو فیصد سے آگے نہ بڑھا ہو اُس مُلک میں دانش سکول ایک مذاق ہی لگتا ہے”۔
”تعلیم عام کرنا اور ہر بچے کو سکول میں داخل کرنا آئینی تقاضا ہے لیکن شائد آئی ایم ایف کا دبائو ہے کہ صحت اور تعلیم پر سرکاری خزانے سے رقم نہ لگائی جائے اور اسے پرائیوٹائزڈ ہی رہنے دیا جائے”۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Feb 24

Click here to View Printed Statement

ہریانہ کے جاٹوں نے احساس محرومی کا شکار ہو کر دہلی کو جانے والی پانی کی نہر بند کردی’پٹریاں اُکھاڑ پھینکی’ عمارتوں کو نذر آتش کردیا۔ فوج بھی پُرتشدد مظاہروں کوروک نہیں پائی۔جاٹ برادری کی احتجاجی تحریک میں 20 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے’ سینکڑوں زخمی ہوئے لیکن مرکزی حکومت مظاہرین کو پُرامن رہنے کی تلقین کرتی رہی۔ مذاکرات کامیاب ہوئے یا ناکام حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے پاس اپنے کسانوں کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ جاٹ تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے۔ مودی سرکار کا شائننگ انڈیا فی الحال بُجھا ہوا ملک ہے جس میں جمہوریت تو بہت ہے لیکن عوام کی حالت زار روز بروز بگڑتی جارہی ہے۔ احساس محرومی پھیلتا جارہا ہے اور خطہ غربت سے رہنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Feb 19

Click here to View Printed Statement

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف عملاً پھٹ پڑے ہیں۔ نیب نے احتساب کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے پنجاب حکومت کی طرف پنجے بڑھائے تو چیخیں نکل گئی ہیں۔ ایف آئی اے میں بھرتیوں کا سکینڈل’ رائے ونڈ روڈ کی تعمیر کا معمہ’گرین لائن ٹرین کا مُدّا اور پاک قطر ایل این جی معاہدے کا پھڈا۔اور پندرہ افسران کی گردن کے گرد پھندا۔ کیا کیا راز سامنے آرہے ہیں۔دو تہائی اکثریت والی حکومت کے وزیراعظم نے بھری محفل میں اپنی بے بسی کا رونا رویا۔ کہا کہ وہ نیب کے چیئرمین کو متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ بیوروکریٹس کو حراساں نہ کیا جائے لیکن چوہدری قمر الزمان نے کوئی عمل درآمد نہیں کیا۔وزیراعظم نے یہ بھی بتا دیا کہ اگر چوہدری صاحب نے اپنے ”کارندوں” کو تنگ کرنے سے نہ روکا تو پھر حکومت قانونی بندوبست کرے گی۔ پنجاب کے وزیر قانون نے وزیراعظم کے مئوقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Feb 18

Click here to View Printed Statement

بندے گننا کتنا مُشکل ہوگیا ہے۔اٹھارہ سال پہلے گنے تھے۔ تب ہم بارہ کروڑ تھے۔ اب کتنے ہیں کچھ حتمی تعداد معلوم نہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ اگر فوج سیکورٹی کے لئے دستیاب ہوئی تو اپنے لوگوں کی گنتی کر لیں گے۔شائد مارچ میں حسب وعدہ یہ کارنامہ سرانجام پاجائے۔ سیکیورٹی کی کیا ضرورت ہے۔ کیا ایسے پاکستانی بھی ہیں جو کسی گنتی اور شمار میں آنا ہی نہیں چاہتے۔ یہ کوئی پولیو مہم تو نہیں اس شماریات کی کسی مسلک’مذہب’ علاقے یا زبان سے بھی کوئی ضد نہیں ہے۔ پھر بھی خطروں کی کئی گھنٹیاں بجتے دکھائی دے رہی ہیں۔صوبوں میں آبادی کی تعداد کا معاملہ ہوگا۔ کسی کمیونٹی کو شائد گنتی ناگوار گزرے۔ لیکن جب تک لوگ گنے نہیں جائیں گے ان کی فلاح وبہبود کے لئے منصوبہ بندی کیسے ہوسکے گی۔
ہر گھر کو علم ہے کہ گھر کے افراد کتنے ہیں۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM

Feb 15

Click here to View Printed Statement

ہر طرف خوف ہی خوف ہے۔ خوف کو خوف سے خوفزدہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ خوف بڑھتا جارہا ہے۔ سیلابی پانیوں کی طرح پھیلتا جارہا ہے۔ذہن و قلب پر اژدھا بن کر قابض ہوچکا ہے۔ بچے ‘بوڑھے جوان’ کمزور اور طاقتور محفوظ اور محصور۔ سب اس خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں۔دہشت گردوں نے ہمیں کس قدر اپنے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔
راولپنڈی کے ایک کالج میں بچیوں کو بھاگتے’ چیختے اور کانپتے دیکھا۔ دہشت گرد آئے نہیں صرف ان کی دہشت کا امکان آیا ہے۔ سائرن بج اٹھے اور سائرن بجتے ہی خوف پھن پھیلا کر سامنے کھڑا تھا۔ قوم کی بیٹیوں کے پاس بے آسرہ ہو کر رونے کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔بے بسی کے یہ آنسو اخبارات اور ٹی وی سکرین پر پڑے تو گھروں میں بیٹھے لوگ سہم گئے۔ Continue reading »

written by deleted-LrSojmTM