Click here to View Printed Statement
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خاتمے کے بعد بے گھر ہونے والے مقامی افراد کو دوبارہ آباد کرنے کا مرحلہ آن پہنچا ہے اور یہ آپریشن کا مُشکل ترین مرحلہ ہے۔ فاٹا اور خیبرپختونخواہ کی خصوصی اپیکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے آرمی چیف نے قبائلی علاقے کے عوام کے عزم کو سراہا۔”خیبرپختونخواہ اور فاٹا کے عوام کے عزم نے دہشت گردوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ہے”سپہ سالار نے کورہیڈکوارٹرز پشاور میں جس خصوصی اجلاس کی صدارت کی اس میں خیبرپختونخواہ کے گورنر’وزیراعلیٰ’ اداروں کے سربراہان اور کور کمانڈر پشاور بھی موجود تھے۔
اگر کسی کا ہنستابستا گھر اُجڑ ا ہو تو اسے اندازہ ہوگا کہ چھت چھن جانے کے بعد مصیبتوں اور مشکلات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کیمپوں کی زندگی ہر روز مارتی ہے۔ راشن کا انتظار ‘موسموں کی یلغار اور ڈونرز کی تحقیقات کے عذاب سے گذرنا پڑتا ہے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
مسافر چیخ رہا تھا” خدا کے واسطے مجھے مکے مدینے پہنچا دو” میرا سامان جہاز میں اور میں ہوٹل میں خوار ہورہا ہوں” یہ صرف ایک جھلک ہے جگ ہنسائی کی۔پی آئی اے کے ملازمین نے فلائٹ آپریشن ہی بند کروا دیا۔ شہر شہر جلسے اور ریلیاںدیکھ کر اندازہہوا کہ حالت نزع کوپہنچی اس پی آئی اے نے اتنے بڑے ہجوم کو پال رکھا ہے۔ اتنے گھرانوں کو بے رزوگار کرنے سے پہلے ان کے نان و نفقہ کا بندوبست بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ یہاں تو پی ٹی سی ایل کے فارغ کئے گئے سینکڑوں ملازمین کو آج تک واجبات نہیں ملے’ پی آئی اے والوں کی دادرسی کون کرے گا۔
وزیراعظم سمیت وزراء کی اgیک ایسی ٹولی ہے جو صرف اور صرف کاروبار پر یقین رکھتے ہیں۔ جس کاروبار میں خسارہ ہو اس کو کاروبار نہیں کہا جاسکتا۔ خسارے کا کاروبار کون کرتا ہے۔لیکن سماجیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاست کو کاروباری اصولوں پر چلایا نہیں جاسکتا۔ ریاست کا حکمران عوام کے لئے باپ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کہیں سختی اور کہیں شفقت۔ ریاست کا مقصد اپنے لوگوں کو پالنا ہوتا ہے۔ خسارے اور منافع کی بنیاد پر فیصلے صرف ذاتی ملوں اور شوگرفیکٹریوں میں ہوتے ہیں ‘ ملکوں میں نہیں۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
اڑھائی سال ہوئے ہیں کوئی دن ایسا نہیں جس دن موجودہ حکمرانوں نے قرض کے حصول کی خواہش نہ کی ہو۔ اس خواہش بلکہ ہوس حصول قرض کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب یہ ملک سر تا پاﺅں قرض میں ڈوب چکا ہے۔67 ارب ڈالر کے قرضے ہمارے سروں پر لاد دیئے گئے ہیں۔ قرض پاکستانی قوم نے نہیں بلکہ حکمرانوں نے لیا ہے۔ ان حکمرانوں کا عوامی مینڈیٹ ایک مخصوص اقلیت کے ووٹ ہیں جنہیں میڈیا اور مال کے زور پر حاصل کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اہل ووٹروں کی کل تعداد تقریباً آٹھ کروڑ ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) نے صرف ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر حکومت بنا رکھی ہے۔اقلیتی ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت بیس کروڑ پاکستانیوں کی قسمت کا فیصلہ کر رہی ہے۔ قرض کی کسی ڈیل میں عام پاکستانی کی رائے نہیں لی جاتی۔ پارلیمان میں موجود جماعتیں بھی حکومت سے نہیں پوچھتیں کہ آخر یہ دھڑا دھڑا قرض لینے کے پیچھے کونسی معاشی حکمت عملی ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک جوں جوں مقروض ہوتا جارہا ہے Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
راستے روکے نہیں جاسکتے۔ قافلے منزل تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔زمین تنگ نہیں کہ کوئی متبادل روٹ نہ مل سکے۔ نااتفاقی کے سبب اگر ایک بار اعتماد ختم ہوجائے تو پھر قافلے والے وقت ضائع نہیں کرتے۔ کاروبار میں دوستیاں نہیں ضرورتیں اہم ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان کے سیاستدان آپس میں جھگڑتے رہیں گے تو چین کوئی نہ کوئی متبادل حل نکال لے گا۔ ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کاروباری رفاقت نے پاکستان کی اقتصادی راہداری کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ چاہ بہار کی بندرگاہ زیر تعمیر ہے۔گوادر نہ سہی چاہ بہار تو ہے ۔ایرانی صدر یورپ میں تجارتی معاہدے کر چُکے ہیں۔ایران کے بنکوں نے از سر نو تجارت شروع کردی ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہمارے تحفظات ہی دور نہیں ہورہے۔ وزیر منصوبہ بندی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک ”کمیونیکیشن گیپ“ پیدا ہوچکا ہے ۔ وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے آل پارٹیز اجلاس میں تمام پارٹیاں متفق تو ہیں لیکن مطمئن نہیں ہیں۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
سعودی عرب اور ایران کے درمیان مخاصمت آج کا نہیں برسوں پُرانا معاملہ ہے۔ کبھی یہ مخالفت کم ہوجاتی ہے اور کبھی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔بدقسمتی سے آجکل دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف تابڑ توڑ سفارتی اور سیاسی حملے کر رہے ہیں۔ جب بھی سعودی عرب اور ایران آپس میں ناراض ہوتے ہیں یا ان کی باہمی چپقلش خطرے کے نشان سے آگے بڑھتی ہے مسلم اُمہ کے ماتھے پر خوف کے پسینے تیرنے لگتے ہیں۔ چونکہ مسلم ممالک کے اندر شیعہ سنی جھگڑے ہوتے آئے ہیں اس لئے عام مسلمان ڈرنا شروع کر دیتا ہے کہ کہیں دو ملکوں اور حکومتوں کی باہمی رنجش مسلکی تفریق میں تبدیل نہ ہوجائے۔ باقی ممالک کا تو علم نہیں لیکن پاکستانی بہت سہمے ہوئے ہیں۔ اسی خوف کا اظہار حزب اختلاف کے تمام رہنماﺅں نے کیا ہے‘ اسی طرف جناب عمران خان نے توجہ دلائی ہے اور یہی خوف حکومت کو کسی واضح لائحہ عمل پر چلنے نہیں دے رہا۔ ہمارے ہاں یہ تصور پختہ ہوگیا ہے کہ ایران اہل تشیع کا نمائندہ ملک ہے اور سعودی عرب اہل سنت کا محافظ ہے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
سعودی وزیر خارجہ کے بعد وزیر دفاع کا دورہ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اس کی اہمیت کے حوالے سے گرما گرم بحثیں بپا ہیں اور ہوسکتا ہے کہ حکومت مخالفت قوتیں اس دورے کو بھی متنازع بنانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن سعودی وزیر دفاع کی آرمی چیف اور وزیراعظم سے ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیانات کے بعد پاکستانیوں کی عمومی رائے سعودی عرب کے حوالے سے بہتر ہوئی ہے۔سعودی عرب نے تمام اُمور پر پاکستان کے مﺅقف کی تائید کا اعلان کرکے بہت سے خدشات دور کر دیئے ہیں۔خوش آئند اور اندر کی خبریں یہ ہیں کہ سعودی ایران تنازعات کو ٹھنڈا رکھنے پر سرزمین حجاز سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ اور چند دنوں میں سفارتی رابطے موثر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان نے سعودی سربراہی میں بننے والے 34 ملکی اتحاد میں شمولیت کا واضح اعلان کردیا ہے اور سعودی سالمیت پر حملے کی صورت میں خود کو غیر جانبداری کے مخمصے سے نکال کر واضح پوزیشن لے لی ہے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
کائنات کا دولہا انسان اللہ پروردگار عالم کی تخلیق کا بہترین شاہکار ہے۔ رب کائنات نے اسے نعمتوں کے اتنے انبار عطا فرما دیے کہ جنہیں دیکھ کر ذرا سا غور کرنے پر ہمیں اللہ نظر آنے لگتا ہے۔ اللہ خود اپنے کلام میں فرماتا ہے”تمہارے نفوس میں میری نشانیاں موجود ہیں تو کیا تم ان پر غور نہیں کرتے“۔
ہم اپنی ذات سے ذرا باہر نظر دوڑائیں تو سورج‘ چاند‘ ہوا‘ پانی ‘ستارے آسمان‘زمین اور جانور سب کے سب قدرت کی نشانیاں ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت انسان کی ایسے خدمت میں جتے ہوئے ہیں جیسے ان کا ہم سے بہت بڑا کام پھنسا ہوا ہے۔ ان پر نگاہ دوڑا کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سورج چمکتا‘چاند دمکتا‘ستار روشن‘ سمندر موجزن‘ ہوائیں چلتی‘ پھول کھلتے‘پھل پکتے اور جانور سواری و غذا کے لئے پیدا ہی ہمارے لئے کئے گئے ہیں۔ احساس کچھ یوں ہوتا ہے کہ جیسے ہم آقا ہیں اور یہ ہمارے خدمت گزار حالانکہ اصل صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ان سب سے پوچھیے کہ اگر انسان نہ ہو تو تمہاری صحت پر کیا اثر پڑے گا تو یہ سب کہیں گے ہماری بلا سے۔ مگر انسان ان کے بغیر ایک پل بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔
غرض ساری کائنات اپنا کام مالک حقیقی کی مرضی کے عین مطابق کر رہی ہے مگر انسان ہے کہ ظالم بھولا ہوا ہے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
سچے رضاکار کو کسی تعریف یا تحسین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رضاکارانہ جذبہ انسانی تسکین اور روحانی تشفی کے ساتھ جُڑا ہوتا ہے۔ طمانیت قلب ہی سب سے بڑا صلہ ہوتاہے۔ ایک مسلمان خلق خدا کے کاموں میں اس لئے حصہ لیتا ہے تاکہ اللہ پاک کی رضا مندی اور قربت حاصل کرسکے۔ جہاں تک کسی فرد کی رضاکارانہ سرگرمیوں کے حوالے سے سماجی اور سماجی تنظیموں کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے لئے رضاکاروں کی عزت افزائی‘ تصدیق اور توثیق ضروری ہوتی ہے۔
پاکستان میں انسانی خدمت کے درجنوں ادارے موجود ہیں۔ سرکاری ‘ نیم سرکاری اورغیر سرکاری سب کی اپنی اپنی خدمات ہیں۔دُکھ اور درد کی گھڑی میں ہمدرد ی کے دو بول بھی بہت وقعت رکھتے ہیں۔ ہلال احمر پاکستان ان سب اداروں سے نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ریڈکریسنٹ یعنی ہلال احمر ایک طرف قومی سطح کا ادارہ ہے تو دوسری طرف یہ ریڈکراس /ریڈکریسنٹ موومنٹ کا حصہ بھی ہے۔ ایک سو نوے ممالک میں ایسے قومی ادارے موجود ہیں۔ انسانی خدمت کی اس تحریک کا ہیڈکوارٹر جنیوا میں ہے۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈکراس اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈکراس/ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز کے ملاپ سے یہ ایک تحریک بنتی ہے ۔ کسی ممبر مُلک میں کوئی قدرتی آفت آئے‘ دہشت گردی ہو یا جنگیں ہوں اس تحریک میں شامل تمام ادارے اور سوسائٹیاں مدد کو پہنچتی ہیں۔ لیکن اصل امتحان اس ملک کی ریڈکراس یا ریڈکریسنٹ کا ہوتا ہے۔
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
جمہوریت جُوں جُوں مستحکم ہورہی ہے سرمائے کا عمل دخل بھی بڑھتا جارہا ہے ۔لاہور کے حلقہ 122 میں حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ دولت کو پانی کی طرح بہایا گیا ہے ۔ اگر ایک طرف پیسے کے ساتھ ساتھ اختیار اور اقتدار کا بے دریغ استعمال ہوا تو دوسری طرف حکومتوں کے اثرورسوخ کے مقابلہ کے لئے بھاری رقوم خرچ کی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک لانے میں اربوں روپے خرچ ہوگئے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے خرچ کئے گئے وسائل پر الگ بجٹ لگا۔ فوج’ پولیس اور دیگر سرکاری عملہ بھی پیسے کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا۔ اگر تمام اخراجات کو جمع کر لیا جائے تو ایک ووٹر پر ہزاروں روپے خرچ ہوئے ہیں۔ جمہوریت اس قدر مہنگی ہوگی اس کا تصور تو شائد اس نظام کے بانیوں نے بھی نہیں کیا ہوگا۔ ابھی بلدیاتی انتخابات کا چل چلائو ہے اور ایک ایک اُمیدوار لاکھوں’ کروڑوں کے اخراجات کا تخمینہ لگائے بیٹھا ہے۔
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
شفیق اور ملنسار’معاملہ فہم اور زیرک’ا ہلیت اور ایمانداری چہرے سے عیاں ۔ دھیمے لہجے میں گفتگو کے ماہر۔مخاطب پر بوجھ نہ اُدھورے جُملے۔ بناوٹ اور تصّنع سے دُور۔پہلی ملاقات میں ہی شخصیت کا اسیر ہوجانے کو جی چاہتا ہے۔ میں شخصیت پرستی سے کوسوں دُور رہنے والا آدمی ہوں۔ احباب جانتے ہیں کہ میرا قلم ریاکاری کی بیماری سے ہنوز بچا ہوا ہے۔ شجاعت علی بیگ سے جو لوگ ملے ہیں وہ میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ بیگ صاحب نے جس شعبے میں بھی قدم رکھا اس شعبے کو معزز کردیا۔ پاکستان کے سینئر ترین بینکار ہیں۔ سندھ حکومت میں وزارت ایجوکیشن اینڈ لٹریسی کے وزیر رہے۔ انہوں نے پورے سندھ کے تعلیمی اداروں کا دورہ کیا’ اور تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ایک بڑی ہی معلوماتی اور کارآمد رپورٹ مرتب کی۔ یہ رپورٹ گورنر سندھ اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو بھجوائی گئی۔ اس رپورٹ پر عملدرآمد تو نہ ہوسکا لیکن یہ حکومتی ریکارڈ کا حصہ بن گئی۔ دو برس قبل جب مملکت پاکستان کی طرف سے نمایاں شخصیات کو تمغات سے نوازنے کا مرحلہ آیا تو ایجوکیشن منسٹری نے اس رپورٹ کا حوالہ دیا۔ رپورٹ از سر نو دیکھی گئی اور اسے اس قابل سمجھا گیا کہ اس کے خالق کو ستارہ امتیاز سے نوازا جائے۔
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ یہ جنگ ہم پر مسلط کردی گئی ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ ضیاء الحق دور میں غلط خارجی پالیسیوں کے سبب ہم نے دہشت گردی کا راستہ کھولا اور پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کا ساتھ دے کر اس عفریت کو مکمل طور پر اپنے گلے ڈال لیا۔ آج کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکہ’ روس اور دیگر طاقتیں سکون اور امن کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں لیکن یہ پاکستان ‘ہمارا پاکستان ایک ایسی جنگ میں مبتلا ہوچکا ہے جس کے ختم ہونے کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ سولہ دسمبر 2014ء کو اے پی ایس پشاور میں دہشت گردوں نے بربریت کی انتہا کردی تھی اور آٹھ ماہ بعد بڈا بیر ایئربیس پر نمازیوں کو خون میں نہلا کر انہوںنے ایک بار پھر اے پی ایس کی خونی یادوں کو تازہ کردیا ۔
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
رینجرز کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے بڑے بڑے ڈاکوئوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر رکھی ہے اور اگر تفتیش اور تحقیق میں مار نہ کھا گئے تو عدالتوں کے ذریعے عبرتناک سزائوں کی نوید ہے۔ سفید پوش ڈاکوئوں کو پکڑنا مشکل کام ہے۔ اس کے لئے آپ ناکہ نہیں لگا سکتے’ ریڈ نہیں کرسکتے’پولیس مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی رعب داب میں لپٹے اور عزت مآب کی قلغیاں سجائے ان قومی ڈاکوئوں کی تعداد بھی بہت ہے اور ان کے بنتے ٹوٹتے اتحاد وفاقی اداروں کو بعض اوقات بے بس کر دیتے ہیں۔ لیکن سپہ سالار اعظم جناب جنرل راحیل شریف کی کمٹمنٹ پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اس مشکل ترین مہم میں مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ ہماری دلی دُعا ہے کہ وہ خوشامدیوں سے بچ بچا کر قومی بقاء کے اس صالح عمل کو منطقی انجام تک پہنچا سکیں اور وارداتیوں کی ریشہ دوانبوں سے محفوظ رہیں۔
میں معروف اور دیکھے بھالے ڈاکوئوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔اخبارات کے اندر کرائم کارنرز ایسی خبروں سے بھرے پڑے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام اور پرامن شہریوں کی عمر بھر کی جمع پونجی لوٹنے والے ڈاکو کس قدر نڈر اور سفاک ہیں۔ رات اڑھائی بجے کے لگ بھگ ٹی وی چینلز پر متواتر ٹکّر اور تازہ ترین خبریں چل رہی ہوتی ہیں۔
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
بھاری فیسیں وصول کرنے اور آئے روز ان فیسوں میں اضافہ کرتے جانے والے سکولوں کے خلاف بچوں کے والدین نے آجکل آہ و بکا شروع کر رکھی ہے۔ حکومت نے ان ”مجبور” والدین کی اشک شوئی کے لئے کراچی’ لاہور اور اسلام آباد میں واقع ان مادر پدر آزاد سکولوں کی انتظامیہ سے مذاکرات کے نام پر چائے پانی کا اہتمام کیا ہے اور خوشخبری دی ہے کہ فیسوں میں کیا گیااچانک اضافہ واپس لے لیا جائے گا۔
میں خود بھی ایک نظریاتی سکول چلاتا ہوں اور جانتا ہوں کہ پانچ سو سے آٹھ سو روپے فیس لے کر سکول کو بہترین طریقے سے چلایا جاسکتا ہے۔میں جب پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں کے بارے میں پڑھتا اور سنتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سکولوں کی مختلف کیٹگیریز ہیںِ۔ایسے سکول بھی موجود ہیں جو اس غریب مُلک میں ڈالر کرنسی میں فیس وصول کرتے ہیں۔ یہ تو قابل فہم ہے کہ سرکاری سکولوں میں تعلیم نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ بھاری بھر کم تنخواہوں کے باوجود اساتذہ پڑھانے کے علاوہ ہر کام کرتے ہیں ۔فکر مند والدین اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے مجبوراً پرائیویٹ سکولوں کی فیس ادا کرتے ہیں ۔لیکن دس دس بیس بیس ہزار ماہانہ فیس ادا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے والدین کی تشویش ناقابل فہم ہے۔
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
بدلتے سماجی اور معاشی تقاضوں کی بدولت اب شہروں کی شناخت بھی تبدیل ہورہی ہے۔ گوجرانوالہ پہلوانوں کے شہر کے طور پر مشہور تھا لیکن اب اس شہرت میں تعلیمی اداروں نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے کیمپس نے تعارف کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میڈیکل کالج نے تعلیمی فضاء ہی تبدیل کردی ہے۔ طالبات کے کالجز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور استعداد سے ماحول میں علمی خوشبو رچ بس گئی ہے۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر ہورہی ہے تو دوسری طرف والدین اور طلباء و طالبات کی سہولت کے لئے نت نئے تعلیمی ادارے کھولے جارہے ہیں۔وہ وقت دور نہیں جب گوجرانوالہ کو بھی کالجوں کا شہر قرار دیا جاسکے گا۔
شہر کے تعلیمی تعارف کا سہرا وہاں سے منتخب ہونے والے چند ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کے سر جاتا ہے ۔ ان محدودے چند افراد کا ر نے واقعی عوامی نمائندگی کا حق ادا کردیا ہے ۔ لیکن یہ ناانصافی ہوگی اگر پنجاب کے علم دوست وزیر اعلیٰ شہبازشریف کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ عوامی سہولیات کی فراہمی اور اجتماعی سماجی کاموں کے لئے میاں صاحب صوبہ کے عوامی نمائندگان کو اداروں کے قیام پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔
جناب عبدالرئوف مغل گوجرانوالہ سے ایم۔پی۔اے ہیں۔ انہوں نے اپنے حلقے میں فروغ تعلیم کے لیے انتھک کام کیا ہے ۔ حال ہی میں بچیوں کے لئے ایک عظیم الشان کالج بنوایا ہے۔ پانچ ستمبر کو اس کالج کی افتتاحی تقریب میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
ڈاکٹر سعید الٰہی رجل العمل ہیں۔ عمل کے آدمی ہیں۔ وہ جو سوچتے ہیں کر گزرتے ہیں ۔اور چونکہ موروثی طور پر پاکستانیت سے جڑے ہوئے ہیں اس لئے ان کی سوچ پاکستان سے باہر جاتی نہیں ہے۔ ان سے جو ایک بار ملتا ہے دوبارہ ملنے کی آرزو پالتا رہتا ہےِ۔ بناوٹ سے کوسوں دور ہیں۔ یہ دنیا دار العمل ہے اور وہ زندگی کے ہر لمحے میں ملک کے لئے کچھ کر نا چاہتے ہیں۔ منصوبے اور تصّورات ہاتھ باندھے حاضر رہتے ہیں۔ عام آدمی ایک وقت میں کسی ایک اشو کو سُلجھا رہا ہوتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک نہیں کئی دماغ ہیں۔ وہ بیک وقت درجنوں محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ادھر مسئلہ پیدا ہوا اُدھر کھٹاکھٹ اس کے دو تین حل سامنے آگئے۔ان کے دفتر میں مغل دربار کا سا ماحول ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ نیا ہورہا ہوتا ہے ۔ بیگ راج جیسے کئی رتن قلم کاغذ لئے ہدایات لے رہے ہوتے ہیں ۔ سیاست پر تجزیہ چل رہا ہے ‘ کسی دوست کی سفارش ہورہی ہے’ ٹی وی پروگرام ریکارڈ ہور ہا ہے’ سیمینار کی تیاری ہورہی ہے’گھریلو معاملات بھی طے ہو رہے ہیں۔ ملاقاتوں کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جب سے ہلال احمر کے چیئرمین بنے ہیں سٹاف کی دوڑیں لگی رہتی ہیں ۔ افسر شاہی معدوم ہوگئی ہے۔ کام ‘کام اور بس کام کا منظر دیکھنا ہو تو اس انتھک مسیحا کے ساتھ ہو لیجئے۔ آپ جسمانی اور دماغی طور پر تھک جائیں گے لیکن ڈاکٹر سعید الٰہی کو ہشاش بشاش پائیں گے۔ وہ کم خور ہیں۔ بہت کم سوتے ہیں۔ کام ہی ان کی ”انجوائے منٹ” ہے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
ایک سال پہلے اور آج کے کراچی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اِکا دُکا واقعات کے باوجود منی پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کی کارروائیاں بھی تھم چکی ہیں۔ اور بھتہ خوری کی لعنت سے بھی بڑی حد تک چھٹکارا مل چکا ہے۔ میں ہر ماہ کراچی آتا ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے کاروباری حلقوں میں گھومتا ہوں۔لوگوں سے مفصل گفتگو ہوتی ہے۔ اب یہ نہیں ہوتا کہ ادھر چائے کا کپ ہاتھ میں ہو اور اُدھر سے خبر آئے کہ شٹر بند کردو’ جلوس آرہا ہے۔ یہ بھی اب خال خال ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی حادثہ یا قتل یا سیاسی اشو پر توڑ پھوڑ ہو یا سرکاری اور نجی املاک کو آگ لگائی جارہی ہو۔ تاجر برادری کے اندر بھی اعتماد بحال ہورہا ہے۔ ان تمام مثبت پہلوئوں کے برعکس ایک انجانا سا خوف موجود ہے۔ کب تک یہاں رینجرزرہیں گے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
اٹھارویں آئینی ترمیم کو عدالت عظمیٰ کی طرف سے توثیق کی سند عطا ہوگئی ہے ۔ یہ عدالتی فیصلہ ہے۔ لیکن اس ترمیم میں صوبوں کو جس قدر اختیارات دے دیئے گئے ہیں اس کے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم کا بیڑا غرق ہو چُکا ہے۔ ہر صوبہ نے تاریخ’ اسلامیات اور اخلاقیات کے حوالے سے اپنی اپنی تاریخ’ اپنا اپنا اسلام اور اپنی اپنی تہذیب کو پھیلانا شروع کردیا ہے۔ صوبائیت کا جو جن بڑی مشکل سے قابو میں لایا گیا تھا وہ اس جمہوری ترمیم نے بوتل سے نکال دیا ہے۔ اس کا پہلا حملہ تو صوبہ خیبرپختونخواہ کے عوام پر ہوا ہے۔ ہزارہ بیلٹ اس نام سے قطعاً متفق نہیں ہے
انہیں الگ صوبہ کے مطالبہ سے کوئی قومی پارٹی بھی اب باز نہیں رکھ سکتی۔بلکہ صورتحال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ پارٹیاں ووٹ اینٹھنے کے لئے ہزارہ والوں کو ”اندر کھاتے” یقین دہانی کراتے ہیں کہ آج نہیں تو کل آپ کو آپ کا صوبہ ضرور مل جائے گا ۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں کے سرائیکی صوبہ کے مطالبہ کو تو اسمبلی قرارداد کے ذریعے ایک پارلیمانی جواز بھی فراہم کیا جاچکا ہے۔ اگرچہ صوبہ پنجاب کے چیف منسٹر ملتان کے اندر صوبائی دفاتر کی شاخیں کھولنے پر تیزی سے عمل کر رہے ہیں لیکن سرائیکی وسیب کی تحریک اسی شدّومدّ کے ساتھ جاری ہے Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
شخصیات بہت اہم ہوتی ہیں۔افراد ہی قوموں کے مقدر سنوارتے اور بگاڑتے ہیں۔ فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ کہا گیا ہے۔رجال عظیم کسی ملت کے دامن میں سجے ہوئے وہ ہیرے اور جواہرات ہوتے ہیں جن کی تعداد سے قوموں کی توانائی کا اندازہ ہوتا ہے۔قحط الرجال کا مطلب ہی یہی ہے کہ قوم میں رہبری کے منصب پر فائز ہستیاں دُنیا میں نہ رہیں۔ مصلحین سے تہی دامن اقوام بے راہ روی اور گمراہی کا شکار ہوجاتی ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل عظیم شخصیات کی ایک تسبیح موجود تھی۔دانے بکھرتے گئے اور قائداعظم کی جیب میں کھوٹے سکّے بچ گئے تھے۔ جو اصلی لوگ تھے وہ اُفتاد زمانہ کا شکار ہوگئے۔ گزشتہ ستر سالہ تاریخ میں ہمیں افراد کار دکھائی تو دیتے ہیں لیکن ان کی تعداد محض آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جنرل حمید گل مرحوم و مغفور ان محدوے چند لوگوں میں شامل ہیں جن کے وجود سے قوم کے اندر اُمید اور یقین کی شمعیں ٹمٹاتی رہی ہیں۔ جنرل صاحب اُن پاکستانیوں کے لئے ایک نفسیاتی سہارا تھے جو خودی اور خوداری کے اوصاف سے لیس ہو کر ملّی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کا مطالعہ زیادہ مفید ہے کیونکہ وہ اپنی سوچ اور فکر کے اعتبار سے مکمل طور پر آزاد تھے۔ عہدے کے بندھن یا کسی سرکاری حیثیت کی نزاکتوں سے مبّرا جنرل حمید گل کا کردار روشن بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔
Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
اللہ پاک نے قرآن پاک میں پانی کو زندگی قرار دیا ہے۔افسوس کہ ہم بحیثیت مسلمان قرآن کی اس انتہائی اہم ہدایت اور روشنی سے اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگیوں کو منور کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ہر سال لاکھوں کیوسک فٹ پانی سمندر میں غرق ہوجاتا ہے۔ بارش کا پانی جو محفوظ ہوجائے تو ہماری بنجر زمینیں بھی لہلاتے کھیتوں میں تبدیل ہوجائیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان ریاستی سطح پر ایسی کسی پالیسی پر عملدرآمد کی پابند نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی زندگی کی حفاظت کے لئے کیا کچھ نہیں کرتا۔ زندگی کو خطرہ ہو تو ہم پوری طرح مستعد ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی اپنا بھائی بھی ہماری زندگی کے لئے خطرہ بنے تو بھائی سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نپٹا جاتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ پانی نہ ہو تو ہم سب چند برسوں کے اندر موت کے منہ میں چلے جائیں۔ تصور کریں کہ پاکستان میں دو سال پانی کی فراہمی بند ہوجائے۔ نہ زمین سے میسر ہو’ نہ بارشیں ہوں نہ گلیشیئر پگھلیں۔تو اس ملک کے اندر جانور ہی نہیں انسان بھی چلتے پھرتے ڈھانچے بن جائیں۔ خوراک اُگے نہ حلق تر کرنے کے لئے آب رواں ملے۔ Continue reading »
written by DrMurtazaMughal@
Click here to View Printed Statement
جب سے اخبار پڑھنا اور سمجھنا شروع کیا ہے اس مملکت خداداد کے خلاف نت نئی سازشیں ہی پڑھنے کو ملی ہیں۔ کبھی یہ سازشیں عسکری شخصیات کی طرف سے ہوتی ہیں’ کبھی کوئی سیاسی شخصیت کسی سازش میں ملوث پائی جاتی ہے۔ کئی بار سوچا کہ شائد پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کے خلاف سب سے زیادہ سازشیں ہوتی ہیں۔ بھارت کی طرف سے گھنائونی سازشیں’ روس کی طرف سے سنگین سازشیں’ امریکہ کی طرف سے سازش در سازش خاد’را’ سی آئی اے’ موساد’ایم۔آئی ٹیکس غرض دُنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں تیسری دُنیا کے اس غریب ترین مُلک کے خلاف کوئی مہینہ ایسا نہیں جس میں سازشیں نہ ہوئی ہوں۔ البتہ یہ امر قابل اطمینان ہے کہ ننانوے فیصد سازشوں کا قبل از وقت بھید کُھل جاتا ہے۔ پھر بھی ایک فیصد ناپاک منصوبوں میں ہم آدھا ملک گنوا بیٹھے’ ایک وزیراعظم کو پھانسی دے دی گئی۔ بھارت کے ساتھ چار جنگیں ہوگئیں۔ تین بار مارشل لاء لگ گیا۔ بلوچ علیحدگی پسند’ پختونخواہ’ سندھو ‘دیش’ سرائیکستان کی تحریکیں آج کل ٹھنڈی پر گئی ہیں Continue reading »
written by DrMurtazaMughal@
Click here to View Printed Statement
آرمی چیف نے بلاکم وکاست واضح کردیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہ داری ہر حال میں مکمل ہوگی۔ جنرل راحیل شریف نے بلوچستان کے دورے کے دوران پاکستان کے دشمنوں کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان اس راہ داری کے مخالفین اور پاکستان کی اقتصادی ترقی کے دشمنوں کو پوری طرح پہچانتا ہے۔ سپہ سالار کے اس پُراعتمادلہجے کے بعد افواج پاکستان اور سول حکومت کی ترجیحات کے حوالے سے یک نگاہی کا تاثر مضبوط ہوگیا ہے۔آرمی چیف کے اس عزم کے ساتھ ہی کراچی اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ تیزی آئی ہے۔میاں محمد نوازشریف نے پارلیمانی پارٹی کے حالیہ اجلاس میں مسلم لیگی ارکان اسمبلی اور وزراء و مشیران کے اہم ترین اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سپہ سالار کی بات کو دہرایا ہے۔ انہوںنے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کو ”ڈی سیٹ” کرنے کے مطالبے کو غیر ضروری اور وقت کا ضیاع قرا ر دیا ہے Continue reading »
written by DrMurtazaMughal@
Click here to View Printed Statement
دہشت گردی اب کسی ایک مُلک یا قوم کا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ ایک بین الاقوامی اشو بن چُکا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے عفریت سے بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ افواج پاکستان کو دہشت گردوں کے خاتمے کا جو ٹاسک دیا گیا تھا وہ بڑی حد تک پورا ہوچکا ہے۔ فوجی نوعیت کی فتوحات قابل ذکر ہیں۔ضرب عضب کے تین اہداف مقرر کئے گئے تھے۔پہلا ہدف ان دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کے ٹھکانے ختم کرنے تھے جو اعلانیہ طور پر ریاست اور ملک کے خلاف برسرپیکار تھے۔ الحمد اللہ ہماری عسکری قوت نے ”ناقابل شکست ” سمجھے جانے والے ان گروہوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ یہ بلوچستان کے علیحدگی پسند لشکر تھے یا اسلام کا نام استعمال کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو توڑنا چاہتے تھے دونوں قسم کے گروہ اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ جو چند بچے ہیں وہ بھی فرار کی راہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ہمارے بہادر فوجی ان کی آخری پناہ گاہوں تک جاپہنچے ہیں۔دوسرا ہدف فرقہ وارانہ تنظیموں کی وارداتوں پر قابو پانا تھا۔مقام شکر ہے کہ ان کے وجود کو بھی نیست و نابود کردیا گیا ہے۔ اب ان کے اندر ہتھیار اٹھانے کی ہمت نہیں رہی اور ان کے ماسٹر مائنڈز کو مضبوط گرفت میں لیا جاچُکا ہے۔ مُلک میں ٹارگٹ کلنک کے اکا دُکا واقعات تو ہوتے ہیں لیکن ایسی انتہا پسند تنظیموں کا نیٹ ورک تباہ کردیا گیاہے۔ تیسرا اور اہم ترین ہدف دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت اور معاون لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا تھا اس حوالے سے کراچی میں جو آپریشن ہورہا ہے اس کے ذریعے بڑے بڑے نامی گرامی لوگوں کو پکڑا جا چُکا ہے۔ چونکہ کرپشن انڈسٹری کے ذریعے ہی ان شدت پسند گروہوں کو مالی مدد فراہم کی جاتی تھی اس لئے مالی بدعنوانی کے ذرائع پر آہنی ہاتھ ڈالا گیا ہے ۔ قوم کو یقین ہے کہ کراچی میں آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر ہی ختم ہوگا۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
اگر آپ بیرون ملک رہتے ہیں اور پاکستان کے بارے میں آنے والی خبروں اور تبصروں پر نگاہ رکھتے ہیں تو آپ کو دو طرح کی صورتحال سے واسطہ پڑے گا۔پہلی صورتحال تو یہ ہے کہ پاکستان میں اوپر سے لے کر نیچے تک کرپشن ہے ‘چور بازاری ہے ‘رشوت اور اقرباپروری ہے اور اداراتی بگاڑ زوروں پر ہے۔ یہ صورتحال کوئی مصنوعی نہیں ہے۔جہاں نیب جیسا ادارہ سپریم کورٹ میں پچاس میگا کرپشن سکینڈل کی فہرست جمع کروائے اور بتایا جائے کہ ساڑھے چار سو ارب روپے کی مالی بدعنوانی ہوئی ہے اور بدعنوانیوں میں سابق وزراء اعظم تک کے لوگ شامل ہیں پھر خبر آئے کہ کراچی میں سالانہ 2سو تیس ارب روپے کا بھتہ وصول ہوتا ہے اور اس بھتہ خوری کے ڈانڈے بلاول ہائوس سے ملتے ہیں۔ پھر انکشاف ہوا Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
ایک اخبار نے لکھا ہے کہ روس میں پاک بھارت وزرء اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھارت کے موقف کو نمایاں کوریج ملی کیونکہ بھارتی میڈیا وہاں پر موجود تھا جب کہ پاکستانی وفد کے ہمراہ پاکستانی میڈیا کو نہیں لے جایا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی موجودگی سے پاکستان کے حق میں فضاء تبدیل ہوجاتی اور جو تصویریں اور فوٹیج بنی ہے اس کے مقابلے میں بھی چند تصاویر چل جاتیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ تھا ہی نہیں۔ ہمارے انکل نسیم انور بیگ (جنت نصیب) فرماتے تھے کہ معاشی آزادی کے بغیر ہر آزادی ادھوری رہتی ہے۔ پاکستان معاشی طور پر آزاد نہیں تو وہ خارجی سطح پر باعزت کیسے ہوسکتا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ پاکستان کا انگ انگ قرضوں میں جکڑا ہوا ہے بلکہ پاکستان کا ہر سال کا بجٹ بھی خسارے کا بجٹ ہوتا ہے اور ہمیں اپنے معاملات ریاست چلانے ‘تنخواہیں دینے اور وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی قرض لینا پرتا ہے۔ Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
Click here to View Printed Statement
وزیراعظم پاکستان کی طرف سے بیرونی اخبارات میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں میاں صاحب نے ملکی ترقی کے لئے تعلیم کو بنیاد قرار دیا ہے لیکن عملاً ان کی حکومت تعلیم کے لئے کیا کر رہی ہے اس کا اندازہ ممتاز محقق ا
ور ماہر سیاسیات جناب اکمل سومرو کے حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون سے ہوتا ہے ۔ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں”محکمہ اسکولز کی بیوروکریسی نے وزیرِ اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے ساتھ جو چالاکی کی اور جس طرح دروغ گوئی کے ساتھ کام لیا ہے وہ حیران کن ہے۔ جون میں پنجاب اسمبلی نے جو تعلیمی بجٹ منظور کیا ہے اس کی تفصیلات سے خود وزیرِ تعلیم بھی آشنا نہیں ہیں۔ اگروزیر تعلیم کی مرضی سے بجٹ بنا ہوتا یا وہ آگاہ ہوتے تو ذرا بیوروکریسی سے یہ سوال پوچھتے کہ پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب کی مہم نئے سرکاری اسکولز کھولے بغیر کیسے کامیاب ہوگی؟پنجاب میں 40 لاکھ مزید بچوں کو اسکولوں میں لانے کا ہدف ہے Continue reading »
written by deleted-LrSojmTM
|